دنیابذات خود اچھی یا بری نہیں ہے۔انسان کی سوچ زمانے کو اچھا یا برا بناتی ہے جب انسان صحت مند ہورزق کی فراوانی ہو، معاشرے میں عزت مل رہی ہو‘ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوں تو اسے زندگی کا سنہرا دور قرار دیا جاتا ہے۔اس کے برعکس اگر بیماری، تنگ دستی کا سامنا ہو، لڑائی جھگڑوں میں دن گزرتے ہوں تو دوسروں کو دوش دیا جاتا ہے۔انسانی زندگی دکھوں، تکالیف، آفتوں، مصائب، ناکامیوں، خوشیوں، کامیابیوں،آزمائشوں، قہقہوں اور مسکراہٹوں کا مجموعہ ہے۔ زندگی کوئی کمفرٹ زون نہیں ہے۔انسان کی فطرت ہے کہ ہمیشہ خوشی اور سکون میں جینا چاہتاہے اورمشکلات، تکالیف اور آزمائشوں سے دور بھاگنے کی کوشش کرتا رہتا ہے‘خوشی اور سکون کے حصول کے لئے ہر آنے والا دن قربان کرتاہے کہ شاید کل کو اپنے اہداف تک رسائی مل جائے اور اسی تگ و دو اور جدوجہد میں زندگی کے شب و روز گزرتے رہتے ہیں۔دنیا کا اصول ہے کہ کامیابی صرف محنت کرنے میں ہے۔ہر فرد کو حق حاصل ہے کہ وہ محنت کرکے اپنا معیار زندگی تبدیل کرے محنت کے نتیجے میں جو کچھ مل جائے اس پر صبر اور شکر کرنا چاہیے۔انسان لاکھ کوشش کرے۔ دنیا کی فطرت تبدیل نہیں کر سکتا‘ دنیا میں باعزت اور باوقار زندگی گزارنا ہو تو دنیا کو اپنی مرضی کا تابع بنانے کی کوشش کرنے کے بجائے وقت کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنا ہوتا ہے تکلیف اور مصیبت میں صبر جبکہ کامیابی، خوشی اور خوشحالی پر شکر ادا کرنے سے تکالیف اور ناکامیوں کا احساس کم ہوتا ہے‘جب انسان صبر و شکر کا مضبوط ہتھیار بوقت ضرورت چلانا سیکھ جاتا ہے تو پھر وہ حالات سے کبھی مات نہیں کھاتااور جو صبر اور شکر سے منہ موڑ لیتا ہے تکلیف کے وقت کہتاہے کہ آخر میرے ساتھ ہی یہ معاملہ کیوں ہوتا ہے اور خوشی و راحت کے وقت کہتاہے کہ یہ تو میری محنت اور قابلیت کی بدولت ہے تو وہ اطمینان قلب سے محروم ہو جاتا ہے۔ پشتو زبان کے شاعررحمان بابا کہتے ہیں کہ عقل مانگنے کے بجائے بخت مانگو کیونکہ ہم نے بڑے بڑے عقل مندوں کو بخت والوں کی غلامی کرتے دیکھا ہے۔جو لوگ اپنی قسمت سے مطمئن نہیں ہوتے ایسے لوگ بہت کچھ ساتھ ہونے کے باوجود بھی بے سکون رہتے ہیں‘ان پر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ یہ لوگ حاسد بن جاتے ہیں اور یہ بات تو مسلمہ ہے کہ حاسد لوگ زندگی بھر مطمئن نہیں ہوتے‘ حسد کرنے والے ہر وقت انگاروں میں جلتے ہیں جو دوسروں کو تو نظر نہیں آتے صرف جلنے والا ہی اس انگاروں کو محسوس کرتاہے۔صابر و شاکر لوگ یہی سوچتے ہیں کہ دنیا والے غموں میں گھرے ہوئے ہیں میرا غم دوسروں سے بہت کم ہے‘قدرت کی تقسیم مثالی اور منصفانہ ہے کسی کے پاس مال و دولت کی ریل پیل ہوتی ہے مگر وہ اولاد جیسی نعمت سے محروم ہوتے ہیں۔ کسی کا دسترخوان انواع و اقسام کے کھانوں سے لبریز ہوتا ہے اور ان کے نصیب میں پھیکا قہوہ اور نمکین بسکٹ کھانا لکھا ہوتا ہے۔کوئی ساری عمر مال وزر کمانے میں گزارتا ہے مگر اس کی یہ دولت اس کے کام نہیں آتی جب وہ دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو خالی ہاتھ ہی جاتا ہے سوائے کفن کیاس طرح اس کی زندگی بھر کی کمائی ہوئی دولت پر کوئی دوسرا عیاشی کر رہا ہوتا ہے۔دنیا میں انسان جو کچھ کھاتا، پیتا، کھلاتا اور پلاتا ہے وہی اس کا ہے‘اس لئے صبر، شکر اور قناعت کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے۔یہی اس کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔