پاکستان کی آبادی میں نوجوان افرادی قوت کے تناسب سے بوجوہ خواہش بھی خاطرخواہ فائدہ نہیں اُٹھایا جا رہا۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ ڈھائی کروڑ باشندوں کی عمریں اٹھارہ سے پچیس سال کے درمیان ہیں اور عمر کا یہ حصہ اعلیٰ تعلیم (یونیورسٹی سے تحصیل علم) کا دور ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے ملک بھر میں ہر سال صرف 23 لاکھ نوجوانوں کو ’اعلیٰ تعلیم‘ کے مواقع مل رہے ہیں۔ یہ اعلیٰ تعلیم اپنے معیار میں کس قدر اعلیٰ ہے یہ ایک الگ موضوع ہے تاہم زیرنظر پہلو یہ ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت کے لئے اعلیٰ تعلیم کا شعبہ ناقابل رسائی بنا ہوا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ جو نوجوان کسی نہ کسی طرح یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کر بھی لیتے ہیں اور کامیابی کے ساتھ تعلیم (گریجویٹ) مکمل کرنے کا اعزاز (موقع) پاتے ہیں‘ اُن میں بیروزگاری کی شرح زیادہ ہے اور ہر تین میں سے ایک بے روزگار نوجوان تعلیم اور عملی زندگی کے درمیان پائی جانے والی خلیج کے کنارے پر بیٹھا ہے۔ یہ صورتحال اپنی جگہ بحرانی ہے جس کے حوالے سے فیصلہ سازی کے مراحل پر غوروخوض خاطرخواہ نتائج نہیں دے رہا۔ پاکستان میں 1984ء سے طلبہ یونینز پر پابندی عائد ہے جس کی وجہ سے جامعات کے اندر فیصلہ سازی کے عمل سے نوجوانوں کو الگ رکھا گیا ہے جبکہ یونینز کے ذریعے طلبہ میں قائدانہ صلاحیتیں ابھاری جا سکتی ہیں اُنہیں عملی زندگی کے چیلنجز اور قومی سیاست و معیشت سمجھنے کے قابل بنایا جا سکتا ہے جو اپنی جگہ ایک اہم و الگ ضرورت ہے۔ توجہ طلب ہے کہ تعلیمی اسناد (ڈگریاں) ہمیشہ ہی سے اہمیت کی حامل ہوتی ہیں لیکن یہ اعلیٰ معیار کی تعلیم کی ضمنی پیداوار ہیں‘ جس کے نتیجے میں اکیڈمیز کے مرکزی اسٹیک ہولڈرز (طلبہ اور فارغ التحصیل طلبہ) کے مفادات الگ الگ ہیں جبکہ اِنہیں ایک ہونا چاہئے۔ یہ دباؤ دراصل تعلیمی پروگراموں‘ کیمپس سہولیات‘ غیر نصابی سرگرمیوں اور ضروری ترامیم (اپ گریڈیشن) کو متاثر کر رہا ہے۔ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے منظر نامے پر سرکاری حکمناموں کا غلبہ ہے اور یہ شعبہ سیاست اور سیاسی مداخلت کی نذر (متاثر) دکھائی دیتا ہے۔ خاص طور پر سرکاری شعبے میں‘ عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والا پیسہ تعلیمی سہولیات اور اِس کے معیار کی بہتری کے لئے بروئے کار نہیں لایا جا رہا۔ اعلیٰ تعلیم کے اداروں کے لئے سربراہوں کے انتخاب میں جس اہلیت و قابلیت کو پیش نظر رکھا جانا چاہئے اُس میں صرف کسی ادارے کے مالی بحران کا حل ہی نہیں بلکہ موجود وسائل کا استعمال کرتے ہوئے درسی و تدریسی سہولیات
میں اضافہ بھی شامل ہونا چاہئے۔ منظورنظر افراد کی اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جامعات اعلیٰ معیار کی تعلیم فراہم کرنے کی بجائے مخصوص اہداف حاصل کرنے جیسی وقتی ضرورت پوری کرتی ہیں اور ایسی صورت میں وہ مثبت اثرات (تبدیلی) کی صورت نتیجہ حاصل نہیں ہو پاتا جو اعلیٰ تعلیم کے اعلیٰ مقاصد کا مرکز و محور ہوتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے موجودہ نظام میں اصلاح کی ضرورت ہے تاکہ فرسودگی کا خاتمہ ہو۔ نوآبادیاتی طرز حکمرانی اور اِس کی سوچ جو کہ تعلیم پر حاوی ہے‘ اِس کے معیار کو متاثر کئے ہوئے ہے۔ تعلیم کو صرف اُور صرف ملازمت سے جوڑ دیا گیا ہے جبکہ اِس کے ساتھ جڑی تحقیق اُور علم دوستی کا فقدان پایا جاتا ہے۔ جدید دنیا میں ترقی یافتہ عالمی معیشت کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ وہاں تعلیم کو تحقیق سے جوڑ کر عملی زندگی کے تقاضوں اور ضروریات سے ہم آہنگ کر دیا گیا ہے اُور تعلیم و عملی زندگی میں فاصلہ نہیں رہا۔ پاکستان میں تعلیم و تحقیق اور صنعتیں یا کاروبار ایک دوسرے سے متصل نہیں‘ یہی وجہ ہے کہ ملازمتی مواقع (جاب مارکیٹ) پھیلنے کی بجائے سکڑ رہی ہے اور اِسے خاطرخواہ پھلنے پھولنے کے تکنیکی مواقع نہیں مل رہے جبکہ باہمی مہارت کی بھی کمی ہے۔ اِس صورتحال سے نمٹنے کے لئے تعلیم کے بعد تربیت کا الگ سے انتظام کرنا پڑتا ہے جو ایک مہنگا اور تھکا دینے والا عمل ہے لیکن اگر تعلیمی مراحل کے دوران ہی تربیتی مواقع بھی فراہم کئے جائیں تو اِس پورے عمل کو تیز رفتاری سے آگے بڑھایا جا سکتاہے۔ دنیا بھر میں تکنیکی مہارت کو عام طور پر فیکلٹی میں سرمایہ کاری کے ذریعے فروغ دیا جاتا ہے جبکہ ’سافٹ اسکلز‘ کو غیر نصابی سرگرمیوں میں مشغول ہونے کے ذریعے پروان چڑھایا جاتا ہے۔ علاؤہ ازیں تحقیق کے شعبے میں بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور کثیر الجہتی ڈونر ایجنسیوں کے وسائل سے بھی فائدہ اُٹھایا جانا چاہئے جس کیلئے تعلیمی عمل کو عالمی معیار کے مطابق ڈھالنا پہلی ضرورت ہے۔ پاکستان کے شعبہئ تعلیم و تحقیق میں مقامی صنعتی شعبہ سرمایہ کاری کر رہا ہے جسے بڑھانے اور پرکشش
بنانے کیلئے حکومت ایسی تمام صنعتوں کیلئے ایک خاص تناسب سے ٹیکسوں میں چھوٹ متعارف کروا سکتی ہے جو تعلیم کے مراحل میں تحقیق کی مالی سرپرستی کریں۔ اگر یہ سلسلہ وسیع پیمانے پر چل نکلا یہ صنعتیں فارغ التحصیل ہونے سے قبل ہی طلبہ کو ملازمتوں کی پیشکشیں کریں گی جیسا کہ چند ملٹی نیشنلز ادارے کر بھی رہے ہیں لیکن اِس میں نوجوانوں کا استحصال نہیں ہونا چاہئے اور بطور مزدور (لیبر) اُن کے ملازمتی اوقات کار اور حالات کار جیسے مفادات کا تحفظ کرنا متعلقہ حکومتی ادارے کی ذمہ داری ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے منظرنامے کا تعلق ملک کی سیاسی معیشت سے بھی ہے۔ ایک طرف جامعات آمدنی کے محدود وسائل بالخصوص حکومت کی جانب سے ملنے والی مالی امداد میں کمی کی وجہ سے بحران سے گزر رہی ہیں تو دوسری طرف نئی جامعات کے قیام کے اعلانات کئے جاتے ہیں‘ جو سراسر متضاد اقدام ہے۔ اعلیٰ تعلیم کسی بھی مہذب معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اہم و بنیادی (کلیدی) کردار ادا کر سکتی ہے۔ اِس کے ذریعے نوجوانوں کو صرف معاشی طور پر ہی نہیں بلکہ سیاسی طور پر بھی بااختیار بنایا جا سکتا ہے اور اِسی کے بل بوتے پر ملکی برآمدات میں اضافہ بھی ممکن ہے۔ قیام پاکستان کے بعد اعلیٰ تعلیم کو اعلیٰ ملازمتوں یا بیرون ملک نقل مکانی کرنے جیسے اہداف و مقاصد کے لئے مختص کر دیا گیا ہے جبکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی یافتہ اشکال مصنوعی ذہانت اور ڈیٹا سائنس متعارف ہونے کے بعد صورتحال یکسر تبدیل نظر آتی ہے اور ’آئی ٹی‘ کا شعبہ عالمی معیشت پر بھی حاوی دکھائی دے رہا ہے جس میں بڑے پیمانے پر برآمدات کے امکانات موجود ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ جنوری 2023ء کے دوران پاکستان سے آئی ٹی برآمدات میں 35فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق جنوری میں پاکستان سے ٹیکنالوجی کی برآمدات 19 کروڑ (190ملین) ڈالر رہیں جو کمپیوٹر اور ٹیلی کام سروسز میں بالترتیب تیئس فیصد اور بیس فیصد جبکہ مجموعی طور پر پینتیس فیصد کم ہیں۔ ’آئی ٹی‘ برآمدات میں کمی کے داخلی و خارجی محرکات (وجوہات) میں عالمی سطح پر معاشی مندی (کساد) کے علاؤہ آئی ٹی سروسیز برآمدات کرنے والوں کا ترسیلات زر کے متبادل غیرقانونی ذرائع (حوالہ ہنڈی) کا استعمال بھی ہے کیونکہ اِس ذریعے سے فی ڈالر زیادہ روپے ملتے ہیں۔ پاکستان کو عصری ضروریات (ٹیکنالوجیکل ایڈوانسمنٹ) کے ساتھ آگے بڑھنے کے لئے طویل سفر طے کرنا ہے جو اعلیٰ تعلیم پر حاوی جمود ’اسٹیٹس کو‘ سے نکلے (خلاصی حاصل کئے) بغیر ناممکن ہے۔