دیکھتے ہی دیکھتے زمانہ اور اس کے اطوار کیسے بدل گئے کبھی جن اقدار پر ہم فخر کیا کرتے تھے جن کی بنا پر خود کو دوسروں سے ممتاز سمجھتے تھے اب انہی اقدار کوہم نے بالائے طاق رکھ دیا ہے، اگلے زمانے کے کچھ لوگ ان اقدار کا رونا گاہے گاہے اب بھی روتے ہیں مگر نئے آدمی کو یہ نئی اقدار راس آتی جا رہی ہیں، اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ یہ روش، یہ راستہ ان حالات کی دین ہے جن کا ہم شکار ہو چکے ہیں اب مان لینا چاہئے کہ، لائف کا پیٹرن اور سٹائل بھی اب وہ نہیں رہا کہ جو کل تھا، کل کے طرز زندگی میں دوسروں کا حوالہ معتبر تھا اور آج کا طرز ِ زندگی کچھ اس طرح ہے کہ ایک نامعلوم خوف نے سب کو اپنی ذات تک محدود کر لیا ہے، میرا کمرہ، میری الماری میرا شیلف میرا قلم میری کتاب میری جاب میری تنخواہ سے لے کر ”میری مرضی“ کے اکھڑ پن تک سب کچھ اپنی ذات کے گرد ہی گھومتا ہے۔
جس کو دیکھو ذات کے کھونٹے سے ہے بندھا ہوا
عشق کا مارا کوئی اس شہر میں رہتا نہیں
ان اچھی اقدار میں مہمان نوازی بھی ایک عمدہ صفت تھی، اور ہمارے لئے مہمان کی آمد ایک بڑی دلی او ر روحانی خوشی کا باعث ہو تی، میں یہ تو نہیں کہتا کہ مہمان نوازی کا یہ سلسلہ اب قطعاََ رک گیا ہے کیونکہ ”ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں“ لیکن وہ جوش و خروش اب یقیناََ باقی نہیں رہا، داغستان کے معروف شاعر رسول حمزہ توف کے شعر کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ مہمان اس وقت زیادہ اچھا لگتا ہے جب وہ واپس جارہا ہو تا ہے، یہ آواز نئے دور کی ہے جب جدید حالات اور حسیات نے زندگی کے سارے تقاضے بدل کر رکھ دئیے ہیں، یہ باتیں اب زیادہ پرانی نہیں ہیں کہ بچوں بڑوں کا اپنے قریبی رشتہ داروں کے گھر جا کر ہفتوں رہنا ایک روزمرہ کی سرگرمی تھی، خصوصا ًماموں اور چچا کے گھر جا کر کئی کئی دن بے تکلفی سے رہنا ایک اپنائیت کی نشانی تھی، گرما کی چھٹیوں کے لئے تو کتنے کتنے دن پہلے سے پروگرام بنتے اور جن کے گھر نہ جا پاتے و ہ ناراض ہو جاتے، مجھے یاد ہے کہ گرما کی چھٹیوں میں ہم کزنز مل کر گاؤں سے آٹھ دس کلو میٹر دور زیارت کاکا صاحب ؒ کے قصبے سے دو ڈھائی کلو میٹر پہلے پڑنے والے سر سبز و شادب درختوں سے گھرے ہوئے ایک چھوٹے سے گاؤں ”ولئی“ میں کزنز کے ہمراہ اپنے ماموں سید علی شاہ مرحوم کے گھر پہنچ جاتا، یوں تووہ میرے چچا زاد بھائیوں کے ماموں تھے مگر ان کے دل کی طرح ان کے گھر کے دروازے ہمیشہ مہمانوں کے لئے کھلے رہتے، جتنے دن مہمان ان کے گھر رہتے ان کے ہونٹوں کی مسکراہٹ مدھم نہیں پڑتی تھی البتہ جب مہمان جانے لگتے تو بے حد اُداس ہو جاتے،میں ایک سیلانی آدمی ہوں یہاں وہاں گھومتا رہتا ہوں لیکن سچ کہتا ہوں کہ میں نے بچپن اور لڑکپن میں جو موسم گرما میں ”ولئی“ کے باغات میں تتلیوں اور جگنوؤں کے پیچھے بھاگتے اور ہنستے کھیلتے مہ و سال گزارے ہیں ویسی سرشاری پھر مجھے عمر بھر نصیب نہیں ہوئی اس لئے اب بھی بہانے بہانے وہاں پہنچ جاتا ہوں اور میں نے اپنے لکھے ہوئے پاکستان ٹیلیویژن پشاور کے کئی ایک ڈرامہ سیریلز میں آؤٹ ڈور ریکارڈنگز اس چھوٹے سے گاؤں میں کی ہے، وہاں جا کر میں بیتے دنوں کو پکارتا رہتا ہوں حالانکہ میں نے خود کہا ہوا ہے۔
کھیل بچپن کے لڑکپن کے بہت دلکش تھے
اس زمانے میں کہاں بار دگر جائیں گے
پھر بھی ان دنوں کو یاد کرنے سے بڑی لذّت کوئی اور نہیں، لیکن یہ سب کل کی باتیں ہیں اب رشتہ داروں کے گھر بہت ہی تکلف سے جایا جاتا ہے مہمانوں کی طرح چند لمحے گزار کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، اب رسول حمزہ توف کی بات میں وزن لگتا ہے، اب ہر شخص کی اپنی ایک الگ سی دنیا ہے، اور وہ اس میں کسی اور کی دخل اندازی پسند نہیں کرتا، یہ ”پرائیویسی“ کا دور ہے، شاید آج کا ایک حوالہ ہمارے معاشی نظام میں بگاڑ بھی ہے اب رزق کی فراوانی کل کی طرح نہیں ہے،کل گھر میں کوئی ایک شخص کام کرتا تھا باقی گھر کے لوگ گھر کو بنائے سنوارے رکھتے تھے اب گھر کا گھر جاب پر ہو تا ہے اس لئے کسی مہمان کے پاس بیٹھ کر خوش گپیوں کا وقت کسی کے پاس نہیں،جاب سے واپسی پر جاب اور ٹریفک کی تھکن کے ساتھ گھرمیں داخل ہونے والے کسی بھی شخص کو گھر میں مہمان کو دیکھ کر کتنی خوشی حاصل ہوسکتی ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں، اور مہمان بھی وہ جو بغیر کسی پیشگی اطلاع کے آ جائے، اس لئے آج کا بیانیہ یہ بن گیا ہے کہ ”کل ہم انتظار کیا کرتے تھے کہ کب کوئی مہمان آئے گا کہ ہم کھانا کھائیں اور یہ انتظار ہم آج بھی کرتے ہیں مگر اس طرح کہ ’کب یہ مہمان جائے گا کہ ہم کھانا کھائیں“ بدل گیا نا سب کچھ اور یہ آج کے حالات کی دین بھی ہے مگر ایک پشتو روزمرہ تو صدیوں سے اپنی بصیرت کی روشنی بکھیر رہا ہے کہ ”ھلہ بہ زاریگم چہ دہ کارہ اوز گاریگم“ (میں آپ کے صدقے واری جاؤں گا مگر جب کام سے فارغ ہو جاؤں تب۔۔)
دنیا نے تری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزز گار کے
سو اب ہم کل کی نسبت ایک مختلف زمانے میں سانس لے رہیں،کل کی مجلسی زندگی بھی خیا ل و خواب ہوئی وہ محفلیں بھی اب فسانہ ہوئیں اب ہم ہیں اور ایک گوشہئ تنہائی ہے جہاں گزشتہ کل کی رونقوں کے بارے میں سوچنا اچھا تو لگتا ہے مگر اس کے لئے ہم خود سے کچھ کرنے کے روا دار نہیں ہیں، اب ہم خود کچھ کرنے کی بجائے دوسروں کو دوڑنے پر اُکساتے ہیں کیونکہ فارسی کہاوت کے مطابق ”دیو انہ بکار خویش ہوشیار‘ ہو گیا ہے اور اب اسے ابن انشا کی بات پر اسے مکمل یقین آ گیا ہے کہ
حق اچھا پر اس کے لئے کوئی اور مرے تو اور اچھا
تم بھی کوئی منصور ہو جو سولی چڑھو، خاموش رہو