معنوی دوست: معنوی دشمن

پاکستان مخالف امریکہ بھارت گٹھ جوڑ قابل تشویش ہے۔ امریکہ اور بھارت کی جاری شراکت داری دونوں ممالک کے درمیان تاریخ کا گرمجوش تعاون ہے جس سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ امریکہ بھارت کے کندھے پر بندوق رکھ کر چین کو شکار کرنا چاہتا ہے۔تاہم اس وقت کی یہ جنگ ماضی سے مختلف اِس لئے ہے کہ اِس کا تعلق ٹیکنالوجی عہد سے جڑا ہوا ہے۔ چین اور بھارت کی ایک دوسرے سے متعلق پالیسیوں کی شدت جغرافیائی سیاسی رقابت کی واضح مثال ہیں۔پاکستان میں ڈیجیٹل تبدیلی اپنے ابتدائی مرحلے میں ہے اور ایک پیچیدہ معاشی بیانیئے کا شکار ہے۔دوسری طرف امریکہ اور بھارت کے درمیان ٹیکنالوجی میں تعاون وہ عنصرہے جو چین کے مقابلے میں بھارت کو لانے کی کوشش کا نتیجہ ہے۔جس کی وجہ سے بھارت کی خطے میں بڑھتی ہوئی مسابقت اور جدید ٹیکنالوجی تک رسائی زیادہ ہے جبکہ پاکستان  کو بھی اس شعبے میں اپنی بھر پور صلاحیتوں کامظاہرہ کرنا ہوگا۔ امریکہ کے ساتھ بھارت کی بڑھتی ہوئی ٹیک پارٹنرشپ اسے جدید ٹیکنالوجی تک زیادہ رسائی فراہم کرتی ہے‘ جس سے اُسے چند شعبوں میں پاکستان پر برتری حاصل ہے۔ مثال کے طور پر معلومات کے تبادلے میں اضافے سے امریکہ اور بھارت کو اہم انفراسٹرکچر ٹیکنالوجیز میں تعاون کا موقع مل رہا ہے جو پاکستان کے لئے تشویش کا باعث ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اکثر بھارت ٹیکنالوجی کے منفی استعمال کے ذریعے  پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کی حکومت‘ کاروباری اداروں اور شہریوں کے خلاف سائبر حملے ہوسکتے ہیں جس کی ایک مثال ”پیگاسس“ نامی سافٹ وئر تھا جسے بھارت نے خریدا اور اِس کا استعمال ملکی سطح کے علاوہ پاکستان کے خلاف بھی کیا گیا۔ مزید برآں امریکہ اور بھارت کے درمیان تعاون کے نتیجے میں جنوبی ایشیا میں سائبر ہتھیاروں سمیت عسکری ٹیکنالوجی کے شعبے میں دوڑ کا خطرہ بڑھ گیاہے۔ اِس پوری صورتحال میں ہمیں اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئے کہ امریکہ اور بھارت کا گٹھ جوڑ بنیادی طور پر چین کے خلاف ہے لیکن چونکہ بھارت کی پاکستان دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اِس لئے یقینی طور پر بھارت ہر نئی ٹیکنالوجی کو پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے بھی استعمال کرے گا اور امریکہ و چین کی رقابت سے بھارت بھرپور فائدہ اُٹھا رہا ہے۔ بھارت امریکہ سے دفاعی شعبے میں جو تعاون حاصل کر رہا ہے اُس سے بھارت کے پاس جدید ہتھیاروں میں اضافہ بھی ہو رہا ہے جس پر پاکستان کو بجا تشویش ہے۔ ٹیکنالوجی کے شعبے میں امریکہ بھارت تعاون کا مرکزی نکتہ‘سیمی کنڈکٹر کی صنعت میں سرمایہ کاری ہے جس پر چین کی حکمرانی ہے اور امریکہ اِس اجارہ داری کو بھارت کی مدد سے ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ حالیہ چند ہفتوں میں ہوئی پیشرفت کے مطابق امریکی اور بھارت سیمی کنڈکٹر صنعتی ہم منصب مشترکہ ٹاسک فورس قائم کریں گے جو ابھرتی ہوئی ٹیلی مواصلات اور خلائی ٹیکنالوجی کے لئے وقف ہو گی۔ اگر بھارت اپنے اِن مقاصد میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اِس سے  پورے خطے کی سلامتی اور معاشی مفادات  کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ پاکستان کو اِس محاذ پر ہونے والی ہر خبر پر نظر رکھنے کے ساتھ محتاط طرزعمل اختیار کرنا چاہئے اور اگر پاکستان کے لئے ممکن نہ ہو کہ وہ ان مضمرات سے مکمل طور پر محفوظ رہ سکے تو کم از کم یہ تو کیا جا سکتا ہے کہ اِن سے نمٹنے کے لئے فعال اقدامات کی صورت لائحہ عمل نظر آنا چاہئے۔ وقت معنوی دوست اور معنوی دشمن کی پہچان کا نہیں بلکہ اپنے مفادات کے لئے ہر دوست دشمن سے فائدہ حاصل کرنا ہے۔