برطانوی ماہر تعلیم لارڈ میکالے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ میں نے برصغیر پاک و ہند کے طول و عرض میں سفر کیا ہے۔ مجھے کوئی بھی شخص بھکاری یا چور نظر نہیں آیا۔ اس ملک میں میں نے بہت دولت دیکھی ہے، لوگوں کی اخلاقی اقدار بلند ہیں اور سمجھ بوجھ اتنی اچھی ہے کہ میرے خیال میں ہم اس وقت تک اس ملک کو فتح نہیں کر سکتے جب تک کہ ہم ان کی ثقافتی اقدار کو توڑ نہ دیں جو انکی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ ہم ان کا قدیم نظام تعلیم اور تہذیب تبدیل کریں۔ کیونکہ اگر مقامی لوگ یہ سمجھنے لگیں کہ ہر انگریزی اور غیر ملکی شے ان کی اپنی اشیا ء سے بہتر ہے تو وہ اپنا قومی وقار اور تہذیب کھو دیں گے اور حقیقتاً ویسی ہی مغلوب قوم بن جائیں گے جیسا کہ ہم انہیں بنانا چاہتے ہیں۔اسی لارڈ میکالے نے ہندوستان کی نوآبادیات کیلئے ایک نظام تعلیم وضع کیا۔جو1835 میں انگلش ایجوکیشن ایکٹ کے نام نافذ ہوا۔ لارڈ میکالے کا اصرار تھا کہ ہندوستانیوں کو انگریزی ادب پڑھایا جائے جبکہ خود انگریز اس زمانے میں کیمیا، برقیات، دھات کاری اور معدنی وسائل سے متعلق تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ انگریز اچھی طرح جانتا تھا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی پڑھانے سے ملک معاشی ترقی کی جانب گامزن ہو جاتا ہے۔ اس وقت ہمیں جس نظام تعلیم کی ضرورت ہے اس کی بنیاد ٹیکنالوجی اور جدید دور سے ہم آہنگ دیگر ضروریات کے پورا کرنے صلاحیت پر ہو۔ ہمارے سامنے چین کی مثال ہے جس نے آج ٹیکنالوجی کے ذریعے پوری دنیا پر راج کرنے کا راز پالیا ہے اور بڑی کامیابی سے وہ دنیا پر راج کر رہا ہے۔ امریکہ اوردیگر یورپی ممالک بھی حیران ہیں کہ کس طرح چین کا مقابلہ کریں۔ دوسری طرف ہم ہیں کہ ہمارے معاشرے میں سب سے بڑا سکالر‘ ماہر تعلیم، سیاست دان,جج,وکیل,صحافی اور افسر وہی مانا جاتاہوتا ہے جسکی انگریزی زیادہ بہتر ہو چاہے وہ دیگر عصری و دینی علوم و فنون کی ابجد سے ناواقف کیوں نہ ہو۔ لارڈ میکالے نے ایسی حکمت عملی بنائی جسے ہم 2 سو سال میں بھی نہ توڑ سکے۔ ہم فرنگیوں کی غلامی سے 76 سال پہلے آزادی حاصل کر چکے لیکن انہوں نے ذہنی غلامی سے جان چھڑایا نہیں جا سکا۔دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔ مگر ہمارا نصاب و نظام تعلیم وہی دو سو سال پرانا ہے۔یہ بات طے ہے کہ جب تک ہم عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نظام تعلیم اور نظام انصاف اپنے لئے وضع نہیں کرتے۔ترقی کے بجائے تنزلی کا شکار ہی رہیں گے۔