زلزلے سے ہونے والے زیادہ مالی اور جانی نقصان کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ یہ اچانک آکر آناً فاناً تباہی مچاتا ہے اور اس کی پیش گوئی یا پہلے سے آگاہی ممکن نہیں، تاحال جو سائنسی آلات موجود ہیں وہ زلزلے کی پیمائش تو کرسکتے ہیں تاہم زلزلے سے بروقت آگاہ نہیں کر سکتے۔گزشتہ دنوں ترکیہ اور شام میں آنے والے خوفناک زلزلے کے بعد ایک وڈیو سوشل میڈیا پر گردش کرتی نظر آئی۔ ایک بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق اس ویڈیو میں برف سے ڈھکے ہوئے ایک علاقے میں بہت سے پرندے ایک درخت کے گرد منڈلاتے ہوئے یا پھر اس پر بیٹھے نظر آرہے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ ویڈیو کی حقیقت کیا ہے بہت سے لوگ ایک بار پھر اس بات پر بھی اپنی اپنی رائے دیتے نظر آئے کہ آیا جانوروں اور حشرات الارض کو زلزلوں سے قبل اس قدرتی آفت کے بارے میں پتہ لگ جاتا ہے اور اگر ہاں تو کتنا پہلے؟سائنسی ترقی کے باوجود زلزلوں کی پیشگی اطلاع دینے والی ٹیکنالوجی محض بیس سیکنڈ سے ایک منٹ کے اندر ہی زلزلہ آنے کا 'شیک الرٹ' جاری کرتی ہے۔ یہ وقت کسی حفاظتی اقدام کے لیے ناکافی ہوتا ہے، تو کیا جانور ایسی حسیات رکھتے ہیں جہاں تک ابھی انسانی ترقی اور دماغ نہیں پہنچ پایا ہے؟یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق تاریخ میں پیچھے جائیں تو زلزلے سے قبل جانوروں کا اسے محسوس کر لینے کا ذکر قدیم یونان میں 373 قبل مسیح میں ملتا ہے جہاں یہ دیکھا گیا کہ ایک طاقتور زلزلے سے کئی روز قبل علاقے سے سانپ، چوہے اور نیولے مکانی کر گئے تھے۔سال 2004 میں بحر ہندمیں زیر زمین زلزلے کے بعد سونامی آیا جس نے چودہ ممالک میں تباہ کاریاں پھیلائیں۔ نیشنل جیوگرافی کے مطابق سونامی آنے سے کچھ دیرپہلے بھی کہیں مقامی لوگوں نے ہاتھی چنگھاڑتے ہوئے اونچائی کی طرف جاتے دیکھے تو، کہیں بگلے نشیب میں اپنی پناہ گاہیں چھوڑتے ہوئے ملے اور کسی کے پالتو جانور باہر نکلنے سے انکاری تھے تو کہیں چڑیا گھروں میں جانور دبکے ہوئے تھے۔امریکہ کے نیشنل زو کے مطابق واشنگٹن ڈی سی میں سال دو ہزار گیارہ کے زلزلے سے قبل مقامی چڑیا گھر کے جانوروں میں شدید بے چینی پائی گئی تھی۔امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق ایسا بالکل ممکن ہے کیونکہ زلزلے کی بڑی لہر سے پہلے ایک یا کئی ایسی چھوٹی لہریں آتی ہیں جنہیں جانور اپنی حسیات کے ذریعے محسوس کر لیتے ہیں۔ یہ وہی ویوز ہوتی ہیں جن کا کھوج زلزلے کی پیشگوئی کرنے والی مشینیں بھی لگا لیتی ہی۔۔۔مگر چھوٹی اور بڑی لہر کے درمیان جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا، بہت کم، محض سیکنڈز کا فرق ہوتا ہے۔امریکہ ہی کی ریاست اوکلاہوما میں 3ستمبر 2016 کی صبح چھ بج کر سینتالیس منٹ پر ویدر ریڈارز نے بڑی تعداد میں ایک ہی وقت میں پرندوں کی اُڑان نوٹ کی۔ پھر سات بج کر ایک منٹ پر ریاست میں زلزلہ آیا جس کے جھٹکے آٹھ ریاستوں میں محسوس کیے گیے یعنی زلزلہ آنے سے پورے چودہ منٹ قبل بڑی تعداد میں پرندوں نے اس علاقے سے نقل مکانی کی۔ یہ حرکت چھوٹی اور بڑی لہروں کے آنے سے کافی پہلے کی تھی۔اگر غور کریں تو اس کا مطلب یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ زمین کی تہوں میں منٹوں، گھنٹوں یا ممکنہ طور پر دنوں پہلے کچھ ایسا ہورہا ہوتا ہے جس سے انسان اور ٹیکنالوجی انجان ہوتے ہیں۔اٹلی میں اگست اور نومبر دو ہزار سولہ کے درمیان سوا دو مہینے کے عرصے میں تین قابل ذکر زلزلے آئے اور ان تین زلزلوں کے درمیان ہزاروں آفٹر شاکس۔ جرمنی کے معتبر میکس پلینک انسٹیٹیوٹ سے وابستہ سائنسدان اور پرندوں کے علم کے ماہر مارٹن وائکیلسکی نے زلزلوں سے قبل جانوروں کے رویے پر تحقیق کے لئے وسطی اٹلی میں نورشیا زلزلے کے مرکز کے قریب ہی فارم کے جانوروں سے بائیو لاگنگ ٹیگس منسلک کیے۔ ان جانوروں میں گائے، بھیڑیں اور کتے شامل تھے۔اس تحقیق میں دیکھا گیا کہ زلزلوں یا شاکس سے بیس گھنٹے قبل تک فارم پر موجود جانوروں کی حرکات و سکنات غیر معمولی ہوجاتیں اور وہ پہلے سے پچاس فیصد زیادہ بے چین یا متحرک نظر آتے اور ایسا ایک وقت میں پینتالیس منٹ سے زیادہ عرصے تک جاری رہتا۔ ان حرکات اور تبدیلیوں کی بنا پر سٹڈی سے منسلک سائنسدانوں نے 4 اعشاریہ صفر سے زیادہ کے آٹھ زلزلوں کی پیشگوئیاں کیں جن میں سات درست ثابت ہوئیں۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہ سٹڈی ایک ایسے مقام پر کی گئی جس کے قریب ہی زلزلے کا مرکز موجود تھا۔ جس کے ہزاروں آفٹرشاکس چھوٹے بڑے زلزلوں کی صورت میں آئندہ مہینوں میں ظاہر ہوتے رہے۔زلزلوں سے قبل جانوروں کی حرکات چینی اور جاپانی سائنسدانوں کے لئے بھی دلچسپی کا باعث رہی ہیں۔4 فروری 1975 کو دس لاکھ کی آبادی والے چین کے شمال مشرقی شہر ہائیچینگ میں سات اعشاریہ تین شدت کے زلزلے میں عمارتیں گرنے سے جانی نقصان بہت ہی کم ہوا کیونکہ علاقے میں بیس دن قبل ہی کسی بڑے زلزلے کے آنے کی پیش گوئی کر دی گئی تھی جس کی وجہ سے شہری پہلے ہی عمارتیں خالی کرچکے تھے۔ یہ پیش گوئی دسمبر کے مہینے سے آنے والے چھوٹے زلزلوں کے پیٹرن، زمینی پانی کی تبدیل ہوتی سطح اور جانوروں کی غیر معمولی حرکات کو دیکھ کر کی گئی تھی۔مگر ایک سال بعد ہی جولائی 1976 میں چین ہی کے صنعتی شہر تینگشان میں، جس کی آبادی بھی لگ بھگ دس لاکھ ہی تھی، سات اعشاریہ چھ شدت کا زلزلہ آیا جس کی کوئی وارننگ جاری نہیں کی جا سکی۔ یہ زلزلہ شہر کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی نگل گیا۔ہائیچینگ زلزلے کی پیش گوئی کی سائنسی تحقیق کے لئے چین پہنچنے والی امریکی سائنسدانوں کی ایک ٹیم کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق ہائیچجنگ زلزلے کی پیشگوئی کا ماخذ علاقے میں تواتر سے آنے والے چھوٹے زلزلے یا پیشگی شاکس تھے۔ رپورٹ کے مطابق باقی تمام عوامل سے حتمی طور پر کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیاجاسکتا۔1977 میں امریکی کانگریس نے زلزلوں کی پیش گوئی کے کسی ممکنہ قابل بھروسہ طریقہ کارپر تحقیق کے لئے اور زلزلوں کے نقصانات میں کمی کے لئے قومی پروگرام ترتیب دیا جس میں امریکی جیولوجکل سروے نامی ادارہ، وفاقی ایمرجنسی مینیجمنٹ ادارہ،قومی ادارہ برائے معیارات اور ٹیکنالوجی اور قومی سائنس فانڈیشن مل کر کام کر رہے ہیں۔ یہ پروگرام اب بھی جاری ہے مگر حالیہ برسوں میں اس پروگرام کا مرکزی نکتہ ہے زلزلے کی پیشگوئی پر تحقیق کے ساتھ موجودہ وارننگ نظام کو بہتر بنانا اور زلزلہ پروف انفراسٹرکچرپر انحصار میں اضافہ کرنا ہے تاکہ زلزلوں سے ہونے والے نقصانات کو کم سے کم کیا جا سکے۔