انسانی اسمگلنگ نیٹ ورک

بہتر معاشی مستقبل کی تلاش میں یورپی ممالک کا رخ کرنے والے غیرقانونی تارکین وطن اپنے سفر میں جن جان لیوا کھٹن مراحل سے گزرتے ہیں‘ اُن کے بارے میں حقائق دل ہلا دینے والے ہیں۔ رواں ہفتے اٹلی کے جنوبی علاقے کالابریا کے قریب طوفانی سمندر میں کشتی ڈوبنے سے کم از کم پینتالیس تارکین وطن ہلاک ہوئے جبکہ ایک کشتی میں ایک سو سے زائد افراد سوار تھے۔ ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق تارکین وطن میں پاکستانی بھی شامل ہیں۔ یہ غیر معمولی واقعہ تارکین وطن کی حالت زار کو اجاگر کرتا ہے جو مجبوراً اپنے آبائی ممالک سے دور بہتر معاشی مستقبل کا خواب دیکھتے ہیں کیونکہ اپنے ممالک میں انہیں وہ کچھ میسر نہیں جن کی وہ خواہش رکھتے ہیں۔اِس پورے منظرنامے میں درپردہ پھلتا پھولتا انسانی اسمگلنگ نیٹ ورک فعال ہے جبکہ یورپی ممالک میں نسل پرستی بھی سمندر پار کرنے والوں کے لئے منتظر خطرات کا حصہ ہیں۔ پاکستان کے بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے مرتب کردہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ سال 2022ء میں 8 لاکھ 32 ہزار 339 پاکستانیوں نے ملک چھوڑا اور ایک سال کے دوران پاکستان چھوڑنے والوں کی یہ تعداد کہ 2016ء کے بعد سب سے زیادہ ریکارڈ ہوئی ہے! جنوری 2023ء (صرف ایک ماہ) کے دوران ”59 ہزار 977 پاکستانی ملک چھوڑ کر گئے۔“ یہ اعداد و شمار صرف اُن افراد کے ہیں جنہوں نے بیرون ملک کام کرنے کے اجازت نامے (ورک پرمٹ) پہلے سے حاصل کر رکھتے تھے جبکہ اندازہ ہے کہ اِس سے دگنی تعداد میں پاکستانی سیروتفریح یا دیگر مقاصد کے لئے حاصل کردہ ویزوں پر پاکستان چھوڑ چکے ہیں اور کئی ایک معاشی مشکلات سے نکلنے کے لئے ایسے غیرقانونی طریقے بھی استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے جن میں جان سے جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔ قومی تجزیہ کار ادارے ”گیلپ اینڈ گیلانی پاکستان“ کی جانب سے کرائے گئے ایک سروے کے مطابق اگر پاکستانیوں کی اکثریت نے کہا ہے کہ اگر اُنہیں اپنے ملک میں باعزت روزگار کے مواقع ملیں تو بیرون ملک کی بجائے پاکستان رہائش پذیر ہونے کو ترجیح دیں گے تاہم ڈگری رکھنے والوں کو بیرون ملک کام کرنے کے بہتر مواقع ملتے ہیں‘ ان کی بیرون ملک تنخواہیں پاکستان میں ملنے والی اجرت سے زیادہ ہوتی ہیں جبکہ سماجی انصاف اور فلاح بہبود بھی مغربی معاشروں میں نسبتاً زیادہ ہے۔ مالی فائدے کے علاوہ بیرون ملک رہنے سے تحفظ اور بچوں کی تعلیم کے بہتر مواقع الگ سے میسر آتے ہیں لیکن دنیا کا کوئی بھی ملک ایسا نہیں جہاں بندہ مزدور کے حالات تلخ نہ ہوں۔ مغربی ممالک میں کرنسی نوٹ درختوں سے نہیں لگے ہوتے بلکہ وہاں سخت محنت کرنا پڑتی ہے اور دوسرے درجے کے شہری یا  تارک وطن کی حیثیت سے رہتے ہوئے مساویانہ شہری حقوق بھی حاصل نہیں ہوتے۔ یہ اطلاعات خاصی تشویشناک ہیں کہ تارکین وطن پاکستانی خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں گزشتہ کئی سالوں سے امتیازی اور غیر انسانی کام کے حالات کا شکار ہیں اور اُن کے مسائل و مشکلات کے لئے  خاطرخواہ اقدامات دیکھنے میں نہیں آ رہے۔ موجودہ معاشی بحران کی وجہ سے پاکستان میں بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے جبکہ ایک خاص آمدنی رکھنے والے ملازمت پیشہ افراد مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہیں کیونکہ اِنہیں گزر بسر کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اِس پورے منظرنامے میں قومی و صوبائی فیصلہ سازوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشی بہتری کے اہداف کو حاصل کرنے کے لئے کوشش کریں۔ بہتر تعلیم اور صحت کی سہولیات کی فراہمی سے حالات بہتر بنائے جا سکتے ہیں۔ لیبر قوانین پر عمل درآمد یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر معیشت اچھی رہی تو روزگار کے مزید مواقع پیدا ہوں گے اور پاکستانیوں کو مغربی ممالک کی چراگاہوں کی طرف ہجرت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی جو بظاہر سرسبز نظر آتی ہیں لیکن اُن تک پہنچنا اور اُن میں کام کرنا خطرات سے خالی نہیں۔ مغربی ممالک میں پھیلتی نسل پرستی اور عدم برداشت و رواداری پر جس قدر بھی تشویش کا اظہار کیا جائے وہ کم رہے گی۔ اِن حالات میں پاکستان کے لئے چیلنج یہ ہے کہ نوجوانوں کو اُمید دلائے اور اُن کے مستقبل کو بہتر و محفوظ بنانے کے لئے اعلانات نہیں بلکہ عملی اقدامات کئے جائیں۔