خبر آئی ہے کہ اٹلی کے قریب غیر قانونی تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے سے 28پاکستانیوں سمیت 58 افراد جاں بحق ہوگئے‘ بوسیدہ کشتی میں 180افراد سوار تھے جو اٹلی کے قریب سمندر کی چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش ہوگئی۔ڈوبنے والوں میں سے پچاس افراد کو بچالیا گیا۔ دیگر افراد کی تلاش جاری ہے‘ ہلاک ہونیوالوں کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے‘ ان غیر قانونی تارکین وطن میں پاکستان، ایران اور افغانستان کے باشندے شامل ہیں جو یورپ جانا چاہتے تھے۔یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے‘ لوگ اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر اچھے مستقبل کی تلاش مین غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر ایسے ہی درد ناک انجام سے دوچار ہوجاتے ہیں‘گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان سے کم و بیش 8 لاکھ افراد اچھے مستقبل کا خواب آنکھوں میں سجائے قانونی اور غیرقانونی طریقے سے بیرون ملک جاچکے ہیں‘جن میں سے سینکڑوں افراد اپنی زندگیاں داؤ پر لگا چکے ہیں ان کے والدین، بیوی بچوں اور رشتہ داروں کو خبر ہی نہیں کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں‘ پاکستان سے ہر روز کئی افراد اچھی
زندگی گزرانے کے خواب کیساتھ جان جوکھوں میں ڈال کر یورپ کا سفر شروع کرتے ہیں لیکن جب یہ سفر غیر قانونی ہو تو اس میں ایسے مواقع بھی آتے ہیں جس میں صرف زندہ رہنا ہی واحد مقصد بن جاتا ہے۔ایسے افراد میں سے ایک بشارت علی بھی ہیں جو ایک پرخطر سفر کے بعد یونان کے ایک کیمپ میں پہنچے۔انہوں نے 25 جولائی کو شروع ہونے والے اپنے سفر کی کہانی یوں بیان کی ہے کہ انہوں نے جولائی کی 25 تاریخ کو کوئٹہ سے مال بردار گاڑی میں دیگر 25 افراد کے ساتھ ایران کی سرحد عبور کی۔ایران کی سرحد پار کرنے کیلئے پیدل بھی سفر کرنا پڑا اور وہاں سے انہیں 15سے 14افراد کی ٹولیوں میں گاڑیوں میں بٹھایاگیا جس میں سے کئی کو گاڑیوں کی ڈکی میں بھی بند کیاگیا اور نو سے دس گھنٹے تک سفر کیا۔وہاں سے وہ بندر عباس پہنچے، جس کے بعد انہیں بسوں میں سامان رکھنے والی جگہوں پر بند کرکے شیراز پہنچایا گیا اوراس دوران ہمارے پاس کھانے پینے کے لیے کچھ نہیں تھا۔وہاں سے آگے کے سفر کے دوران ترکی کی سرحد کے قریب ماکو کے پہاڑوں پر نو دن تک رکنا پڑا۔یہاں ہمیں دیگر افراد کے آنے تک رکنے کا کہا گیا لیکن نو دس دن گزرنے کے بعد جب لڑائی ہوئی تو ہمیں سرحد پار کرائی گئی‘ ایران سے 16گھنٹے پیدل چلنے کے بعد ترکی میں داخل ہوئے اور وہاں ہمیں کمرے میں رکھا گیا وہاں سے ہمیں استنبول پہنچایا گیا جہاں پہلے سے بہت سارے لڑکے آگے جانے کے انتظار میں تھے، ان میں کوئی ایک ماہ سے انتظار کر رہا تھا اور کوئی دس سے بیس دن سے موجود تھا۔بشارت علی نے بتایا کہ وہاں سے ہمیں 15سے 25 افراد کی ٹولیوں میں کشتیوں میں بٹھایاگیا اور ایک جگہ پہنچایاگیا، جس کے بعد 75کلومیٹر پیدل متلینہ کا سفر کیا
اور ایک کیمپ میں پہنچے جہاں پہلے سے شامی اور افغان شہریوں کا بہت زیادہ رش تھا جس کی وجہ سے پرچی بنوانے میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا‘بشارت علی نے بتایاکہ پاکستان میں رہ کر کوڑے سے اٹھا کر کھا لیں لیکن اس راستے پر نہ آئیں‘ بہت خطرناک ہے‘ ایجنٹ ہمیں بتاتے تھے کہ آگے کا سفر آسان ہو گا، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہے، ہم نے راستے میں جوانوں کی لاشوں کو دیکھا، جیوانی کے سمندر میں کشتی الٹنے سے تین لڑکے مر گئے اور ان کی لاشیں کوؤں اور کتوں نے کھائیں‘بشارت علی کے مطابق اگر یونان نے انہیں پناہ دے دی تو یہیں رہیں گے اور آگے نہیں جائیں گے، اس وقت یہاں 50ے زیادہ پاکستانی ہیں جو جرمنی، آسٹریااور فرانس جانا چاہتے ہیں۔ان غیر قانونی تارکین وطن کو یورپی ممالک میں ملازمتیں بھی ملتی ہوں گی۔ ان غیر قانونی تارکین وطن کی وجہ سے ملک کی بھی بدنامی ہورہی ہے۔ ارباب اقتدار و اختیار کو وسیع تر قومی مفاد میں پاکستان کی ساکھ پر منفی اثر ڈالنے والے اس عمل کے تدارک کا بھی سوچنا ہوگا۔