پشاور کے کرنسی ڈیلرز ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں استحکام کو عارضی اور غیرپائیدار قرار دیتے ہیں اور روپے کی قدر میں کمی کے حوالے سے متفقہ رائے رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ امریکی ڈالروں کی خریداری عروج پر ہے۔کرنسی ڈیلروں کو یقین ہے کہ اپریل تا جون پاکستانی روپے پر نیا دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ پاکستان میں مقامی کرنسی کو دیرپا اور مستحکم رکھنے کے مارکیٹ میں حکومت کی مداخلت نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے روپے کو مدد نہیں مل رہی اور ڈالر و دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں روپے کی قدر کا تعین خودکار انداز میں مارکیٹ خود کر رہی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان کی قومی آمدنی اور قومی اخراجات عدم توازن کا شکار ہیں۔ ملک کے جاری اخراجات اور درآمدات و برآمدات میں فرق ماہئ جنوری دوہزار تئیس کے دوران بڑی حد تک قابو پانے کی وجہ سے قریب ڈھائی ارب ڈالر کی بچت ہوئی ہے لیکن درآمدات زیادہ عرصہ بند نہیں رکھی جا سکیں گی‘ رواں مالی سال 2023ء کے پہلے سات ماہ کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہونے کی وجہ پاکستان کو ترسیلات زر یا دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی زیادہ آمدنی نہیں تھی بلکہ مذکورہ سات ماہ میں درآمدات کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے غیراعلانیہ جزوی پابندی عائد کی گئی۔ درآمدات کے بل میں اِس بڑی کمی سے رواں مالی سال کے پہلے سات ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہو کر قریب چار ارب ڈالر رہ گیا جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں ساڑھے گیارہ ارب ڈالر تھا۔درآمدات کے بغیر پاکستان کی صنعت کا پہیہ نہیں چل سکے گا۔ اِسلئے درآمدات بحال کرنا پڑیں گی لیکن درآمدات کی حوصلہ شکنی کرنے کیلئے ٹیرف پابندیاں یکم اپریل سے عائد ہونے کی توقع ہے۔ یہ بات پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کیساتھ اپنے حالیہ مذاکرات کے دوران بتائی ہے تاہم ایک بار جب درآمدات پر سے پابندیاں اُٹھا لی گئیں تو میکرو اکنامک حالات میں تیزی سے بہتری آئے گی جو فی الوقت سست روی کا شکار ہیں‘اِس کا مطلب
یہ ہے کہ رواں سال اپریل سے جون کے دوران درآمدات گزشتہ تین سہ ماہیوں کے مقابلے میں زیادہ ہوں گی اور اِس سے روپیہ ایک نئے دباؤ میں آ سکتا ہے یعنی روپے کی قدر میں کمی کرنا پڑے گی جبکہ اِس ممکنہ کمی کا انحصار اِس بات پر ہوگا کہ مارچ میں ’آئی ایم ایف‘ کے ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر کے تعطل کا شکار قرض کی ساڑھے چھ ارب ڈالر کی آخری قسط ملنے کے بعد پاکستان دوست ممالک سے وعدہ کردہ فاریکس سپورٹ کتنی تیزی سے حاصل کرتا ہے اور اِس کے بعد اپریل سے جون کے دوران برآمدات اور ترسیلات زر کس طرح اپنا مثبت کردار ادا کرتی ہیں لیکن جو ایک بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ سٹیٹ بینک دوبارہ شرح مبادلہ کو محدود نہیں کر سکے گا۔ پاکستان نے ’آئی ایم ایف‘ کو یقین دلایا ہے کہ وہ شرح مبادلہ کو دوبارہ محدود نہیں کرے گا اور اسے جولائی دوہزارتئیس سے شروع ہونے والے اگلے مالی سال میں ایک نئے‘ بڑے بیل آؤٹ پروگرام کی درخواست کرنے کے قابل ہونے کے اپنے وعدے پر قائم رہنا ہوگا۔ پرانے بیرونی قرضوں کی ادائیگی جاری رکھنے کے لئے نیا اور زیادہ بڑا قرض ضروری ہو گیا ہے۔ ’آئی ایم ایف‘ سے ایک اور قرض لینے سے گریز اب کوئی آپشن نظر نہیں آتا کیونکہ سعودی عرب اور چین جیسے دوست ممالک نے غیر مشروط طور پر فراہم کئے جانے والے فاریکس فنڈز سے منسلک ہونا شروع کر دیا ہے‘ پاکستان کیلئے ادائیگیوں کا توازن یعنی کرنٹ اکاؤنٹ بنیادی طور پر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے
بھیجی جانے والی اشیا اور خدمات کی درآمدات اور برآمدات کا احاطہ کرتا ہے۔ دو دیگر اشیا بنیادی اور ثانوی آمدنی بھی کرنٹ اکاؤنٹ کا حصہ ہیں۔ مالی سال دوہزارتئیس کے سات ماہ کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہوا کیونکہ درآمدات میں کمی اور برآمدات و ترسیلات زر میں بہتری رہی۔ درحقیقت اشیا ء کی برآمدات کم ہو کر 16 ارب ڈالر رہ گئیں جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 17 ارب ڈالر تھیں اور ترسیلات زر بھی 16ارب ڈالر سے کم رہیں اگرچہ درآمدات میں اضافہ ہوگا لیکن عالمی اقتصادی سست روی اور خلیج تعاون کونسل کے خطے میں پاکستانیوں کیلئے روزگار کے کم مواقع کے درمیان برآمدات اور ترسیلات زر میں خاطر خواہ اضافے کے امکانات بہت کم ہیں۔ حکومت اور سٹیٹ بینک آف پاکستان رواں مالی سال کے اختتام پر جون میں جاری کھاتے کے خسارے کو دس ارب ڈالر سے کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو گزشتہ سال کے 17 ارب ڈالر سے کم ہیں اور ایک ایسی صورتحال میں اِس بات کا امکان کم ہے کہ اپریل تا جون سہ ماہی کے دوران پاکستانی روپیہ مستحکم رہ پائے گا۔ حکومت اور سٹیٹ بینک کو سرمائے کی منتقلی‘ ڈالر کی اسمگلنگ‘ ذخیرہ اندوزی اور غیر قانونی فاریکس ٹریڈنگ کے خلاف جاری کریک ڈاؤن میں روایتی نگرانی کے طریقہئ کار کو بدلنا ہوگا اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ ’انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں خدمات کی برآمدی آمدنی بینکنگ چینلز کے ذریعے سے آئے۔ کمرشل بینکوں کو سٹیٹ بینک کے حال ہی میں ترمیم شدہ ایکسچینج قوانین پر عمل درآمد جاری رکھنا چاہئے جس کا مقصد انٹر بینک مارکیٹ میں برآمدی ڈالر کی فروخت میں تاخیر پر سامان کے برآمد کنندگان کو سزا دینا ہے اور جب تک سزائیں عملاً نہیں دی جائیں گی اُس وقت تک کرنسی مارکیٹ سے متعلق قواعدوضوابط پر خاطرخواہ عمل درآمد بھی دیکھنے میں نہیں آئے گا جو روپے کے مستحکم ہونے کے لئے ضروری ہے۔