انٹرنیٹ کی آزادی اور جمہوریت کا ایک دوسرے کے ساتھ قریبی تعلق ہے کیونکہ انٹرنیٹ جمہوری اقدار کا حصہ (جز) بن چکا ہے اور آج کی تاریخ میں آزادیئ اظہار‘ معلومات تک رسائی اور سیاسی عمل میں ہر خاص و عام کی شرکت کے بغیر فیصلہ سازی جامع اور عوامی رائے کی کماحقہ ترجمان و نمائندہ نہیں ہو سکتی۔ حالیہ برسوں میں انٹرنیٹ کو جمہوریت کے فروغ کے لئے استعمال کرنے کی کئی مثالیں سامنے آئی ہیں جیسا کہ سوشل میڈیا کو احتجاج منظم کرنے اور ووٹروں کو متحرک کرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے اور حکومتی امور میں شفافیت و احتساب بڑھانے کے لئے آن لائن پلیٹ فارمز کا استعمال فروغ پا رہا ہے تاہم انٹرنیٹ کو غلط معلومات اور پروپیگنڈا پھیلانے کے لئے استعمال کئے جانے کے بارے میں خدشات و تحفظات اپنی جگہ موجود ہیں اور حکومتیں عوامی رائے کو متاثر کرنے کے لئے ’آن لائن ٹولز‘ کا استعمال کر رہی ہیں۔ مجموعی طور پر‘ انٹرنیٹ کی آزادی اور جمہوریت کے درمیان تعلق پیچیدہ ہے اور مثبت و منفی دونوں کا مجموعہ ہے اور عالمی سطح پر آزاد انٹرنیٹ صحت مند جمہوریت کے جزو کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔عالمی سطح پر ”انٹرنیٹ آزادی“ کے حوالے سے حقائق پر مبنی حالیہ سالانہ جائزے (رپورٹ) میں کہا گیا ہے کہ سال 2022ء کے دوران جن ممالک میں سب سے زیادہ انٹرنیٹ پر پابندیاں (قدغنیں) لگائی گئیں اُن میں بھارت سرفہرست ہے اور بھارت کا انٹرنیٹ پابندی (شٹ ڈاؤن) کے حوالے سے منفرد اعزاز مسلسل پانچ برس سے جاری ہے۔ پابندیوں سے آزاد اِنٹرنیٹ کے لئے کام کرنے والے غیرسرکاری تنظیموں ”اِیکسیس ناؤ“ اور ”کیپ اِٹ آن“ کے اِشتراک سے کی جانے والی مذکورہ تحقیق میں سال دوہزاربائیس کے ’365 دنوں میں‘ بھارت میں 187 مرتبہ ’اِنٹرنیٹ شٹ ڈاؤن‘ ریکارڈ ہوئے۔ بھارت کے بعد انٹرنیٹ پابندی کے حوالے سے دوسرا ملک ’یوکرین‘ ہے جہاں جاری جنگ کے دوران بائیس مرتبہ انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن نافذ کئے گئے۔ جنوبی ایشیاء کے کئی دیگرممالک کے بھی اس فہرست میں نام موجود ہیں۔بھارت میں انٹرنیٹ کی بندش زیادہ تر بھارت کے زیرتسلط کشمیر میں اُنچاس مرتبہ ہوئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انڈین ٹیلی کمیونیکیشن بل کے تحت مرکزی اور صوبائی حکومتیں ”ضرورت پڑنے پر“ انٹرنیٹ شٹ ڈاؤنز کرتی ہیں اور اِنہیں آئینی طور پر اِس قسم کی پابندی عائد کرنے کے غیر محدود اختیارات حاصل ہیں۔ عالمی سطح پر آزاد انٹرنیٹ کی وکالت اور حمایت کرنے والے چاہتے ہیں کہ آئین کے ذریعے انٹرنیٹ پر پابندی عائد کرنے کی بجائے اِس کے آزادانہ و بلاتعطل فراہمی کو آئینی تحفظ دیا جائے۔ بہت سے ممالک میں امن و امان کی داخلی صورتحال پر قابو پانے یا مختلف قسم کے تنازعات‘ اجتماعات‘ انتخابات حتیٰ کہ بعض ممالک میں امتحانات کے موقع پر بھی انٹرنیٹ بند کرنا ایک معمول بن گیا ہے۔ افریقی ملک ایتھوپیا کی حکومت کی جانب سے شورش زدہ علاقے تیگرے میں عائد کیا جانے والا انٹرنیٹ بلیک آؤٹ دنیا کا طویل ترین شٹ ڈاؤن تھا جو دو سال سے زائد عرصے تک جاری رہا۔انٹرنیٹ کی آزادی کے حوالے سے الگ الگ ممالک میں مختلف قسم کی سوچ پائی جاتی ہے۔ چند ممالک میں انٹرنیٹ بلا روک ٹوک رسائی جبکہ ممالک کی اکثریت چاہتی ہے کہ اُن کی انٹرنیٹ پر گرفت برقرار رہے اور اِس سلسلے میں محدود پابندیاں عائد کرتے ہوئے آن لائن مواد کو سنسر اور کنٹرول کیا جاتا ہے۔ انٹرنیٹ آزادی کا جائزہ لینے والے ایک اور ادارے ”فریڈم ہاؤس“ کی مرتب کردہ رپورٹ ”فریڈم آن دی نیٹ“ کے مطابق ”جیسے جیسے انٹرنیٹ تیز اور پھیل رہا ہے ویسے ویسے اِس پر عائد پابندیوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور انٹرنیٹ پابندیوں کے حوالے سے چین کا نام اُن ممالک کی فہرست میں سب سے اُوپر ہے جہاں انٹرنیٹ کے حوالے سے سخت پالیسی نافذ ہے۔ کورونا وبا کی وجہ سے ’آن لائن سنسرشپ‘ اور نگرانی میں مسلسل اضافے کی وجہ سے حکومتیں اسے اظہار رائے کی آزادی پر کریک ڈاؤن کرنے کے لئے استعمال کر رہی ہیں اور اِسے عموماً قومی سلامتی کی ضرورت قرار دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں انٹرنیٹ کی آزادی خطرات سے دوچار ہے تاہم ایسے ممالک بھی ہیں جہاں انٹرنیٹ ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد ہے۔ اِس پوری بحث کے تناظر میں ممکنہ سوال یہ ہو سکتا ہے کہ انٹرنیٹ کا مستقبل کیا ہے؟ جیسے جیسے دنیا بھر میں زیادہ سے زیادہ لوگ انٹرنیٹ سے جڑ رہے ہیں تو اِس وسیلے کی ترقی اور اِس تک رسائی کے لئے الگ الگ قوانین کی بجائے ایک عالمی قانون کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے جو انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے تحفظ کے ساتھ اِس شعبے میں حکومتی سرمایہ کاری میں اضافے کا تناسب بھی مقرر کرے کیونکہ اب بہتر براڈ بینڈ اور معیاری موبائل فون نیٹ ورکس کی ضرورت درس و تدریس سے لیکر علاج معالجے کی فراہمی اور طرزحکمرانی تک پھیل گئی ہے اور ممالک کے درمیان انٹرنیٹ کے ذریعے نہ صرف ترقیاتی ضروریات اور ترقیاتی امور میں تعاون کے نت نئے امکانات پیدا ہو رہے ہیں بلکہ اِسی انٹرنیٹ کے ذریعے قدرتی آفات یا کسی بھی قسم کے ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لئے درست فیصلہ سازی میں بھی مدد لی جا رہی ہے۔ آج کا انٹرنیٹ ’مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹلیجنس)‘ سے ایک قدم آگے جدید مصنوعی ذہانت اور ڈیٹا سائنس کا مجموعہ بن چکا ہے جس میں چیٹ بوٹس اور ورچوئل اسسٹنٹس سے لے کر فیصلہ سازی میں معاون کمپیوٹرز ایپلی کیشنز مقبول ہیں جہاں تک انٹرنیٹ پر صارفین کی پرائیویسی اور سیکیورٹی کا تعلق ہے تو اِس پر ماضی کے مقابلے آج زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔ اِسی طرح ورچوئل اور اگمنٹڈ رئیلٹی ٹیکنالوجیز کا وسیع استعمال بھی دکھائی دے رہا ہے‘ جس سے شاندار تجربات اور آن لائن تعاون کے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ انٹرنیٹ صارفین کی بڑی تعداد کے لئے یہ ذریعہ صرف سوشل میڈیا اور آن لائن تفریح کا ذریعہ ہے اور اِنٹرنیٹ پر اِنحصار کرنے والے اِس قسم کے صارفین (کمیونٹیز) کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو انٹرنیٹ کا مستقبل تکنیکی ترقی اور بدلتے ہوئے سماجی و ثقافتی رجحانات کے امتزاج سے تشکیل پا رہا ہے۔