قرض لینے میں کوئی برائی نہیں اور اس وقت شاید ہی دنیا میں کوئی ملک ہو جو مقروض نہ ہو۔ خود امریکہ میں بھی حکومتی اخراجات میں بڑا حصہ قرض پر مشتمل ہوتاہے تاہم اصل بات ان قرضوں کا سود مند استعمال اور ان کی واپسی کیلئے مربوط اور منظم پالیسی کا ہونا ہے۔اگر ایسا نہ ہو تو پھر قرض دینے والے اداروں کی طرف سے بے جا دباؤ کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ایک ارب ڈالر کا قرضہ فراہم کرنے کے لئے پاکستان کے سامنے نئی شرائط رکھ دیں۔پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کیلئے غیر معمولی صورتحال کا سامنا ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے تاریخ میں پہلی بار سٹاف لیول معاہدے سے پہلے شرائط پر عملدرآمد کا تقاضا کیا جا رہا ہے، تاریخی طورپر ایگزیکٹو بورڈ اجلاس سے پہلے پیشگی شرائط پر عملدرآمد کی شرط ہوتی ہے۔عالمی ادارے کی شرائط قبول کرنے کی صورت میں آئندہ مہینوں میں مہنگائی مزید بڑھنے کا امکان ہے،مہنگائی کی موجودہ شرح 28 سے بڑھ کر 30 فیصد تک جا سکتی ہے،وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ فروری کی ماہانہ معاشی آؤٹ لک کے مطابق غیر یقینی سیاسی اور معاشی صورتحال کے باعث مہنگائی بڑھ رہی ہے، روپے کی بے قدری اور توانائی کی قیمتوں میں
اضافے سے مہنگائی بڑھی ہے جو آج ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ وزارت خزانہ کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملکی و غیر ملکی قرضوں پر سود کی ادائیگیوں کے باعث اخراجات بڑھ رہے ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ملک میں ٹیکس وصولیوں میں کمی کے خدشات ہیں، 170 ارب روپے کے اضافی ٹیکسز عائد کیے گئے ہیں، اس سے ٹیکس وصولیوں کا سالانہ ہدف پورا کرنے کی کوششوں میں مدد مل سکتی ہے۔ جولائی سے جنوری تک ترسیلات زر میں 11 فیصد،برآمدات میں 7.4 اور درآمدات میں 20.9 فیصد کمی ہوئی جبکہ غیر ملکی سرمایہ کاری میں 44.2 فیصد کمی کا سامنا کرنا پڑا۔وزارت خزانہ کی رپورٹ کے مطابق24 فروری تک زرمبادلہ کے ذخائر 5 ارب 45 کروڑ ڈالرز تھے، 24 فروری کو ڈالر کے مقابلے میں ایکسچینج ریٹ 259.99 روپے تھا۔آئی ایم ایف پہلے سے متفق شقوں میں تبدیلیاں کرکے مزید مطالبات پیش کر رہا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے سٹاف لیول معاہدہ کیلئے پاکستان پر مزید 4 شرائط کا دباؤ ہے، آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق بجلی 3 روپے 82 پیسے فی یونٹ کرنا ہوگی، سرچارج 4 ماہ کے بجائے مستقل بنیادوں پر عائد کرنا ہوگا۔ آئی ایم ایف ایکسچینج ریٹ کو افغان باڈر ریٹ سے منسلک کرنیکا خواہشمند ہے، اس کے علاوہ ایکسٹرنل فنانسنگ پر بھی آئی ایم ایف تحریری یقین دہانی کیلئے بضد ہے۔ پاکستان کو چین کے سوا کسی بھی دوست ملک سے امداد فراہم کرنے کی کوئی واضح کمٹمنٹ نہیں مل سکی، چین کی طرف سے 700 ملین ڈالرز پہلے ہی پاکستان کو مل چکے ہیں، چین سے مزید ایک ارب 30کروڑ ڈالر تین اقساط میں بھی جلد ملنے کی توقع ہے۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈز کے ساتھ ایک ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کرنے کے لئے مذاکرات گذشتہ دو سالوں سے جاری ہیں ہر بار نئی شرائط سامنے آرہی ہیں جس کی بنیادی وجہ ملک میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام اور امن و
امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال ہے۔ کوئی بھی قرضہ دینے والا یہی چاہے گا کہ قرضہ واپس ملنے کے حالات پیدا کرنے کی شرائط رکھے۔ قرضہ دینے والوں کو بھی معلوم ہے کہ ان سے جو ڈالر مانگے جاتے ہیں وہ ملکی معیشت کے استحکام کے لئے نہیں، بلکہ پہلے سے لئے گئے قرضوں کی اقساط اور سود کی ادائیگی کے لئے نئے قرضے لئے جارہے ہیں۔ملک کو موجودہ بدترین معاشی بحران سے نکالنے کے لئے حکومت کو سرکاری اخراجات میں خاطر خواہ کمی کرنا ہوگی جس پر پہلے ہی حکومت نے عمل درآمد شروع کیا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ جب ہم کفایت شعاری کے حوالے سے ٹھوس اور عملی اقدامات کریں گے۔ تب قرضہ دینے والوں کو بھی یقین آئے گا کہ انکے قرضے واپس ملنے کے امکانات روشن ہیں اور جب انہیں یقین آجائے تو شرائط میں بھی نرمی ہوگی۔ حکومتیں اور مالیاتی ادارے خود ہمارے ساتھ رابطے کرکے ہمیں قرضہ دینے کی پیش کش کریں گے۔ اسلئے ضروری ہے کہ ہم آئی ایم ایف سے ملنے والے قرضے پر ہی مطمئن نہ ہوں بلکہ مستقبل کے حوالے سے ٹھوس اور موثر پالیسی ترتیب دینا ہوگی جس کے ذریعے ملکی معیشت غیر ملکی قرضوں کی بجائے مقامی وسائل سے بھر پور استفادہ کرنے کے اصولوں پرکھڑی رہے۔