دستیاب اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ماہ (فروری دوہزارتئیس) کے دوران اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں ملکی تاریخ میں سب سے تیز رفتاری سے اضافہ ہوا۔ خوراک‘ مشروبات اور نقل و حمل کے اخراجات بڑھنا بھی ’افراط زر‘ کی وجوہات میں شامل ہے جس کی وجہ سے عوام اپنی بنیادی ضروریات کے انتخاب پر نظرثانی کر رہے ہیں اور اُنہیں خواہشات کی قربانیاں دینی پڑ رہی ہیں۔ ادارہ برائے شماریات پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق فروری میں ماہانہ افراط زر کی شرح بڑھ کر اکتیس اعشاریہ چھ فیصد تک پہنچ گئی جسے ”کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی)“ کہا جاتا ہے اور یہ جولائی 1965ء کے بعد سے سب سے زیادہ مہنگائی ہے لیکن اِس سے بھی زیادہ خطرے کی بات یہ ہے کہ مہنگائی کو قرار نہیں آ رہا اور ایسے آثار موجود ہیں کہ آنے والے مہینوں میں مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ ہوگا۔ جون سے جنوری تک آٹھ ماہ کے دوران مہنگائی تیس فیصد سے زیادہ رہی جس کے بعد گزشتہ ماہ بیس فیصد سے تجاوز کر گئی تھی اور اگر مجموعی شرح یعنی تیس فیصد کو دیکھا جائے تو یہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں عوام کی اکثریت کے لئے اشیائے خوردونوش کی قیمتیں اُن کی قوت خرید سے زیادہ ہو جاتی ہیں۔ سی پی آئی چار زمروں پر مبنی ہوتی ہے اور اِس کے تحت ٹرانسپورٹ‘ خوراک‘ بنا الکحل مشروبات‘ الکحل مشروبات‘ تمباکو‘ تفریح و سیاحت کے اخراجات کو دیکھا جاتا ہے جن میں ماضی کے مقابلے نصف اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ حکومت نے گزشتہ ماہ ایک ضمنی مالیاتی بل منظور کیا تھا جس میں گڈز اینڈ سروسز ٹیکس کو سترہ فیصد سے بڑھا کر اٹھارہ فیصد کر دیا گیا تھا تاکہ جولائی تک مالی سال کے لئے ایک سو ستر ارب روپے (639 ملین ڈالر) کی اضافی آمدنی حاصل کرنے میں مدد مل سکے۔ حکومت معاشی بہتری کے لئے سخت گیر اقدامات کر رہی ہے اور مزید ٹیکسوں کے ذریعے زیادہ محصولات (آمدنی) میں اضافہ چاہتی ہے جبکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا قرض ملنے کے امکان (جسے فنڈنگ کہا جاتا ہے) کے بعد بھی روپے کی قدر میں کمی نہیں ہو رہی۔ رواں کیلنڈر سال کے آغاز سے اب تک روپے کی قدر میں تقریباً پندرہ فیصد کمی ہو چکی ہے جو افراط زر اضافہ کی بنیادی وجہ ہے اور چونکہ رمضان المبارک قریب ہے اور مہنگائی بڑھ رہی ہے تو رمضان کے دوران تاریخ کی بلند ترین مہنگائی کی سطح دیکھنے کو ملے گی جو اگرچہ ظاہر ہو چکی ہے لیکن یہ مہنگائی کا عروج نہیں بلکہ رمضان کے دوران بھی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔ توقع ہے کہ مارچ میں مہنگائی مزید بڑھے گی۔ اگر حالات معمول پر بھی ہوں تو عموماً رمضان المبارک سے قبل مہنگائی دیکھنے میں آتی ہے اور اب تو معاشی حالات غیرمعمولی ہیں اِس لئے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں مزید اضافے عوام کے لئے اضافی پریشانی کا باعث بنے گا جبکہ قیمتوں کو اعتدال پر رکھنے کا نظام اِس قدر وسیع نہیں کہ یہ پورے ملک میں فعال اور خاطرخواہ کردار ادا کر سکے۔ مہنگائی کے لئے صرف مارکیٹ ہی نہیں بلکہ ’آئی ایم ایف‘ بھی ذمہ دار ہے جس نے قرض کو ملک میں اصلاحات (اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ اور کرنسی کی قدر میں کمی) سے مشروط کر دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آنے والے مہینوں میں افراط زر میں اضافے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ذہن نشین رہے کہ مہنگائی کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ شہری علاقوں میں ’سترہ اعشاریہ ایک فیصد‘ جبکہ دیہی علاقوں میں ’ساڑھے اکیس فیصد‘ ہے۔ مرکزی بینک پالیسی ریٹ (سود) میں اضافے کی تیاری بھی کر رہی ہے۔ ایک سال قبل کے مقابلے میں فروری دوہزارتئیس کے دوران جن اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا ان میں پیاز (416فیصد)‘ مرغی (97فیصد)‘ انڈے (79فیصد)‘ چاول (78فیصد)‘ چنے (65فیصد)‘ دال مونگ (56فیصد)‘ دال چنا (56فیصد)‘ گندم کا آٹا (56فیصد)‘ دال ماش (51فیصد)‘ کوکنگ آئل (51فیصد)‘ کوکنگ آئل (48فیصد)‘ خشک میوہ جات (47فیصد) شامل ہیں۔ اس کے برعکس ٹماٹر کی قیمت میں باسٹھ فیصد اور گڑ کی قیمت میں قریب دو فیصد کمی دیکھی گئی۔ نان فوڈ کیٹیگری میں جن اشیاء کی قیمتوں میں گزشتہ سال کے اِسی مہینے (فروری) کے مقابلے میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا ان میں درسی کتابیں (74فیصد)‘ موٹر فیول (63فیصد)‘ گیس چارجز (62فیصد)‘ اسٹیشنری (62فیصد)‘ واشنگ صابن ڈٹرجنٹ ماچس باکس (52 فیصد)‘ لیکیفائیڈ ہائیڈرو کاربن (48فیصد)‘ موٹر گاڑیاں (38فیصد)‘ تعمیراتی ان پٹ آئٹمز (39فیصد)‘ موٹر وہیکل لوازمات (37فیصد)‘ ٹرانسپورٹ سروسز (33فیصد)‘ موٹر وہیکل کے پرزہ جات (26فیصد)، ٹرانسپورٹ سروسز (پچیس فیصد)‘ شادی ہال چارجز (24فیصد)‘ میجر ٹولز اور آلات (21فیصد) شامل ہیں۔ سلائی (20فیصد)‘ مکینیکل سروسز (19فیصد)‘ اونی کپڑا (18فیصد)‘ سوتی کپڑا (18فیصد)میڈیکل ٹیسٹ (اٹھارہ فیصد) اور گھریلو ملازمین کے اخراجات میں (بیس فیصد) اضافہ ہوا ہے۔مہنگائی کم کرنے کے لئے عموماً شرح سود (پالیسی ریٹ) میں اضافہ کیا جاتا ہے جبکہ ماہرین متوجہ کر رہے ہیں کہ ایسا کوئی بھی اقدام ملک میں کاروباری سرگرمیوں کو مزید سست کر دے گا لہٰذا شرح سود میں اضافے سے گریز کیا جائے کیونکہ مہنگائی کی موجودہ صورتحال اور رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے شرح سود میں اضافہ بے فائدہ ثابت ہو گا۔ ذہن نشین رہے کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس مقررہ وقت سے پہلے طلب کیا گیا اور یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اسٹیٹ بینک سخت مانیٹری پالیسی برقرار رکھ سکتا ہے اور شرح سود کو تین سو سے چار سو بیسس پوائنٹس (بی پی ایس) تک بڑھا سکتا ہے۔ مانیٹری پالیسی‘ بنیادی اقتصادی پالیسیوں میں سے ایک ہوتی ہے جس کا دنیا بھر میں افراط زر پر قابو پانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کی جانب سے اسٹیٹ بینک کو تحریری طور پر آگاہ کیا گیا ہے کہ پالیسی ریٹ (سود) میں اضافہ عالمی سطح پر بے معنی دکھائی دیتا ہے کیونکہ حالیہ افراط زر میں اضافے کی بنیادی وجہ سپلائی پر اثرانداز ہونے والے عوامل کی ہے اور اپنے دعوے کے لئے دلیل یہ دی گئی کہ برازیل‘ چلی‘ ہنگری‘ نیوزی لینڈ‘ ناروے‘ پیرو اور پولینڈ جیسے ممالک نے شرح سود میں جارحانہ اضافہ کیا لیکن اِس سے افراط زر پر قابو پانے میں خاطرخواہ مدد نہیں ملی بلکہ شرح سود بڑھانے سے معیشت پر دباؤ میں اضافہ ہوا ہے جس کا تعلق براہ راست روزگار کے مواقعوں میں کمی کی صورت ظاہر ہوتا ہے۔