سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو روس کے توسیع پسندانہ عزائم سے خوفزدہ امریکیوں نے ’ریڈ آرمی‘ کو شکست دینے کے لئے نقد رقم اور ہتھیار فراہم کئے اور روس کے خلاف ایک منظم جنگ لڑی گئی۔ ایک مرتبہ پھر روس نے اپنے ہمسایہ ملک پر فوج کشی کی ہے اور اِس مرتبہ بھی امریکہ جدید ترین ہتھیاروں کی یوکرائن کو فراہمی کے ذریعے روس کو شکست دینے کیلئے کوشاں ہے‘افغانستان اور یوکرائن کے محاذ جنگ میں مماثلت یہ ہے کہ روس نے غیرضروری طور پر مداخلت کی اور جنگ جیسی جارحیت کسی بھی مذہب یا تہذیب و اقدار میں قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ روس کے اقدامات قابل مذمت لیکن یکساں قابل مذمت امریکہ کا کردار بھی ہے جو روس کو اشتعال انگیزی پر اُکساتا ہے۔ دوسری اہم بات مبینہ دہشت گردی کے خلاف امریکہ نے جس طور عالمی جنگ کا آغاز کر رکھا ہے اُس میں رونما ہونے والے جنگی جرائم انسانی تاریخ کا سیاہ باب ہیں‘ روس یوکرین جنگ 20 فروری 2014ء سے دونوں ممالک کے درمیان مختلف صورتوں سے جاری ہے۔ اِس جنگ کے حوالے سے اگر امریکہ کے ذرائع ابلاغ کی رپورٹنگ اور اُس پر تجزیہ کاری کو دیکھا جائے تو ’سنسرشپ‘ کارفرما دکھائی دیتی ہے کیونکہ درجنوں ذرائع ابلاغ ایک ہی وقت میں اگر ایک ہی قسم کی بات کر رہے ہیں اور ایک مخصوص نکتہئ نظر کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے تو یہ ’آزادیئ اظہار‘ نہیں ہے۔ صاف عیاں ہے کہ امریکہ کے صحافی کرہئ ارض پر کسی بھی دوسرے ملک کے صحافیوں کے مقابلے ’سیلف سنسرشپ‘ پر سب سے زیادہ عمل کرتے ہیں کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں اُنہیں ایک طرح سے زیادہ کام کرنے کا موقع مل جاتا ہے لیکن اگر صحافت کا معیار اور صداقت جیسے اصول متاثر ہوتے ہیں تو اِس کی کسی کو پرواہ نہیں۔ مثال کے طور پر‘ امریکہ یوکرائن کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے جو یقینی طور پر روس کے خلاف استعمال کرنے کے لئے ہیں اِس جدید اسلحے میں ’پیٹریاٹ‘ نامی میزائل بھی ہیں اور صرف میزائل ہی نہیں بلکہ یوکرین کے فوجیوں کو امریکہ کے شہر اوکلاہوما میں واقع ’فورٹ سیل (فوجی تربیتی مرکز)‘ میں پیٹریاٹ میزائل کے استعمال کی تربیت بھی دی جا رہی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ امریکہ روس کے خلاف جنگ میں براہ راست ملوث ہے ذہن نشین رہے کہ ایک پیٹریاٹ میزائل کی قیمت دس لاکھ سے ساٹھ لاکھ امریکی ڈالرز کے درمیان ہے۔ ائر ڈیفنس سسٹم کا حصہ ’پیٹریاٹ میزائل‘ کی مختلف اقسام کا استعمال ٹینک شکن اور عسکری تنصیبات کو نقصان پہنچانے کے لئے کیا جاتا ہے امریکہ چاہتا ہے کہ دنیا پر ایک اور جنگ مسلط ہو۔ افغانستان سے امریکی دارالحکومت واشنگٹن کا فاصلہ گیارہ ہزار کلومیٹرز جبکہ یوکرائن سے امریکہ کا فاصلہ آٹھ ہزار کلومیٹرز سے زیادہ ہے اور اِس قدر فاصلے سے کسی بھی ملک نے امریکہ پر براہ راست حملہ نہیں کیا لیکن امریکہ دیگر عالمی تنازعات کی طرح یوکرائن جنگ کو بھی ہوا دے رہا ہے جبکہ جنگ ہمیشہ تباہی و بربادی لاتی ہے۔ امریکہ کے نشریاتی و اشاعتی اداروں کے معروف صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی جانب سے شاید ہی اِس زاویئے سے افغانستان اور یوکرائن میں امریکہ کی مداخلت اور دلچسپی کو دیکھا جا رہا ہے۔ امریکہ کی داخلی سیاست میں خارجہ امور کا عمل دخل ہوتا ہے اور امریکہ کی سیاسی قیادت اپنے عوام کو ہمیشہ خطرات سے ڈراتی رہتی ہے جبکہ خطرات اور ایسے حالات خود بنائے جاتے ہیں جن میں امریکہ کے خلاف عالمی سطح پر غم و غصے میں اضافہ ہو۔ امریکہ کی قیادت عالمی تنازعات کو اپنے نکتہئ نظر سے دیکھتی ہے اور اِسے امریکی سیاست و سیاسی ترجیحات کے مطابق ڈھالتی ہے امریکہ یوکرائن کی سوچ پر اپنا نکتہئ نظر مسلط کئے ہوئے ہے جس کیلئے امریکی ذرائع ابلاغ رپورٹنگ کرتے ہوئے یوکرائن میں امریکی مداخلت و دلچسپی کو جنگی کاروائی یا امریکہ میں ہتھیار ساز اداروں کے مفادات کی نظر سے نہیں دیکھتے۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ اگر کسی دوسرے ملک نے امریکہ پر حملہ آور ہونیوالے ملک کا اِس طرح ساتھ دیا ہوتا جس طرح امریکہ یوکرائن کا ساتھ دے رہا ہے تو امریکی صحافت و سیاست کی صورتحال موجودہ صورتحال کے یکسر برعکس ہوتییا یہ خبر دی جاتی کہ ”روس دہشت گردوں کو ہتھیار دے کر امریکہ کے خلاف جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے“۔