اس وقت پوری قوم کا ایک ہی مسئلہ ہے کہ الیکشن کب ہونگے یقین جانئے کہ اس کی وجہ سے اکثر کاروبارحکومت تک ٹھپ پڑاہواہے دفتر ی امور شدید متاثر ہیں قبل ازوقت اسمبلی کی تحلیل نے بے یقینی کی فضاء پیدا کی اسکے بعد جس طرح کی نگران حکومت بنائی گئی اور اس میں سیاسی جماعتوں کو نمائندگی دی گئی اس نے بے یقینی کے بادل اور گہرے کردیئے اور سب سے بڑھ کر جب صوبہ میں سرکاری اہلکاروں کے تبادلے کے معاملہ پر سیاست شروع کی گئی پہلے درجنوں افسران کے تبادلے کردیئے گئے بعدازاں ان میں سے مخصوص افسران کو کھڈے لائن لگانے کیلئے دوسر ی بار تبادلے کئے گئے اور سیکرٹری سطح کے تبادلوں پر ڈیڑھ ماہ بعد بھی اتفاق رائے نہیں پیدا کیاجاسکاہے اسکی وجہ سے سیکرٹریٹ میں کوئی بھی فائل کو ہاتھ لگانے کیلئے تیار نہیں کچھ افسران کو پتہ نہیں کہ ان کی اگلی منزل کو ن سی ہے اس لئے وہ دل جمعی سے کام کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں جبکہ کچھ افسران اچھی پوسٹنگ کے لیے بھاگ دوڑ میں لگے ہوئے ہیں چنانچہ ان کازیادہ وقت لابنگ میں صرف ہورہاہے‘ ان حالات میں استحکام پیدا ہوبھی تو آخر کیسے؟جب ایک عام آدمی بھی یہ پوچھ رہاہوکہ الیکشن کب ہونگے تو سمجھ جاناچاہئے کہ سب کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیاگیاہے‘جہاں تک نئے انتخابات کاتعلق ہے تو بدقسمتی سے سیاسی پارٹیاں بھی بتانے سے قاصر ہیں کہ الیکشن کب ہونگے ابھی چندروزقبل ہی عدالت عظمیٰ نے الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے سیاسی قیادت کو اتفاق رائے سے خودہی فیصلہ کرنے کیلئے بہت اچھا موقع دیا تھا مگر جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے اگر یہ کہاجائے تو چنداں غلط نہ ہوگاکہ ہماری سیاسی قیادت کا صرف ایک ہی بات پر اتفاق ہے کہ کسی بھی معاملہ پر اتفاق رائے سے فیصلہ نہیں کرناپارلیمانی جمہوری نظام میں ہوتا تقریباً ایسے ہی ہے کہ سیاسی جماعتیں بہت کم معاملات پر اتفاق رائے کرتی ہیں کیونکہ اگر تمام معاملات اتفاق رائے سے حل ہونے لگیں تو پھرالگ جماعت کاجواز ہی ختم ہوجائیگا تاہم بہت سے اہم اور قومی امورپر ہمیشہ اتفاق رائے پیدا کرنیکی پوری کوشش کی جاتی ہے ماضی میں اسکی تین بڑی مثالیں خودہمارے ملک میں موجود ہیں 1977ء میں جب انتخابی دھاندلی کیخلاف پی این اے نے پیپلزپارٹی کی حکومت کیخلاف تحریک شروع کی اور صورتحال دن بدن بدتر ہوتی چلی گئی حتیٰ کہ مظاہر ین پر گولیاں برسائی جانے لگیں مگر اسکے باوجودفریقین نے پائیدارحل نکالنے کیلئے مذاکرات کے دروازے بند کرنے کے بجائے اتفاق رائے سے مسئلہ کے حل کیلئے مذاکراتی عمل شروع کیاگیا جو کامیابی کے قریب ہی تھاکہ ملک مارشل لاء کی نذر ہوگیا بعدازاں گیارہ برس بعد 1988ء کے اوائل میں اس وقت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے افغان امن معاہدے پر دستخط کیلئے مشاورت کی غرض سے جنرل ضیاء کی تمام تر مخالفت کے باوجود اہم ترین سیاسی قیادت کی گول میز کانفرنس بلائی جس میں بے نظیربھٹو،خا ن عبدالولی خان،مولانا فضل الرحمن،غوث بخش بزنجو،نوابزادہ نصر اللہ اوردیگر قومی قیاد ت شریک ہوئی‘کانفرنس نے اتفاق رائے سے جنیوا امن معاہدے پر دستخط کرنے کے فیصلے کی منظوری دیدی تھی پھر جب آرمی پبلک سکول پرحملہ ہوا اور اس وقت کی حکومت نے اہم فیصلوں کیلئے تمام قومی قیادت کی کل جماعتی کانفرنس طلب کی تو اس وقت عمران خان اسلام آباد میں دھرنا دیئے بیٹھے تھے مگر نہ تو حکومت نے انہیں دعوت دینے میں دیرلگائی نہ ہی انہوں نے یہ معاملہ سیاسی اختلافات کی نذرہونے دیا چنانچہ قومی قیادت بیٹھی اور نیشنل ایکشن پلان کی منظور ی دیدی یہ تین واقعات تاریخ کاحصہ بن چکے ہیں سوال یہ پیداہوتاہے کہ جب چندروز قبل عدالت عظمیٰ نے انتخابات کی تاریخ کیلئے اتفاق رائے پیداکرنے کی ہدایت کی تو سیاسی قیادت نے آخر اس موقع سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا؟حالانکہ جو تین مثالیں دی گئی ہیں ان تینوں مواقع پر بھی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اختلافات کی خلیج بہت ہی گہری تھی ایک میز پر بیٹھنے کاتصور بھی محال تھا مگر سیاسی قیادت تب ہی قامت کی بلندی حاصل کرتی ہے کہ جب اس میں حد درجہ جھکنے کی لچک موجود ہو جب لچک تھی تو سیاسی قیادت نے سیاسی فیصلے خود کرنے کی راہ اختیار کی مگر جب سے لچکدار رویئے دفن ہوئے ہیں سیاسی قیادت نے تو گویا ایک دوسرے کیخلاف سروں پر کفن باندھ لئے ہیں چنانچہ اب یہ بھی طے نہیں ہوپارہاکہ الیکشن کی تاریخ کس نے دینی ہے اوریہ معاملہ طے کرنے کیلئے بھی آخر کار عدالت عظمیٰ کو مداخلت کرنا پڑی خیر بات ہورہی تھی کہ الیکشن کب ہوں گے؟ پاکستان تحریک انصاف کا کہناہے کہ قبل ازوقت الیکشن ہی میں مسائل کاحل مضمر ہے جبکہ حکومتی جماعتوں کاکہناہے کہ مقررہ وقت پر الیکشن ہی مسائل کااصل حل ہے چنانچہ یہ طے ہوناابھی باقی ہے کہ الیکشن آخر کب ہوں گے اس وقت اصل سوال یہ ہے کہ دونوں صوبوں میں عدالتی فیصلے کی روشنی میں نوے روز کے اندر الیکشن ہوجائیں گے ابھی تک تو اس سوال کاجواب ڈھونڈانہیں جاسکاہے اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کیاواقعی الیکشن ہی مسائل کاحل ہے بظاہر تو یہی دکھائی دیتاہے کہ الیکشن چاہے کب بھی ہوں جو بھی فریق ہارے گا اس نے فیصلہ تسلیم نہیں کرنا پہلے روز سے ہی سڑکوں پر معاملہ گرم رکھناہے پارلیمان کے اندر نہیں بلکہ پارلیمان کے باہر فیصلوں کی روایت برقرار رکھی جانی ہے اس کے بعد آخر استحکام کا خواب کیسے شرمندہ تعبیرہوپائے گا سو قوم کو سوچناچاہئے کہ اصل سوال یہ نہیں کہ الیکشن کب ہوں گے۔ بلکہ اصل سوال تو یہ بنتاہے کہ کیاالیکشن سے موجودہ مسائل حل ہوجائیں گے ابھی تک کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف سے یہ اعلان سامنے نہیں آسکاہے کہ الیکشن میں شکست کو دل وجان سے تسلیم کرکے پارلیمانی نظام میں اسے جو بھی ذمہ داری ملے گی اسے مکمل طورپر نبھایاجائے گا تو پھر آخر قوم کو بحرانوں سے نکالنے کی تدبیر کیاہوگی۔