بزرگوں کا کہنا ہے کہ اپنے بچوں کو سونے کا نوالہ کھلائیں اور انہیں شیر کی نظر سے دیکھیں۔تو وہ آپ کے فرمانبردار رہیں گے۔ ہم نے بچوں کی تربیت کا کام اساتذہ کو سونپ کر خود کوبری الذمہ قرار دیا ہے۔ بیشک بچوں کو تعلیم دینے کے ساتھ ان کی اچھی تربیت میں اساتذہ کا اہم کردار ہے مگر تربیت کا عمل گھر سے اور ماں کی گود سے شروع ہوتا ہے۔ والدین کے طرز عمل سے بچے کی فطری تربیت شروع ہوجاتی ہے وہ کوشش کرتے ہیں کہ وہی کام کریں جس سے ان کے والدین خوش ہوں اور انہیں انعام اور شاباشی دیں۔ ہم اپنے بچوں کو اپنے طرز عمل سے خود غرض یا معاشرے کا مفید اور مدد گار شہری بناتے ہیں۔ اگر ہم اپنے بچوں سے نمبروں کے بجائے یہ پوچھیں کہ آج کونسا نیکی کا کام کیا ہے۔ کس کی مدد کی ہے تو بچوں کے ذہن میں ابتدا سے یہ بات بیٹھ جائے گی کہ زندگی کا مقصد دوسروں کے کام آنا ہے۔بچوں کو حد سے زیادہ لاڈ پیار دینا بھی ان کے بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔۔ آپ کا چار سالہ بچہ اپنی بات منوانے کے لیے ضد پر اڑ جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہر بار آپ کا بچہ کسی نہ کسی طرح سے اپنی بات منوا ہی لیتا ہے۔ آپ کا بچہ اس وقت آپ کی بات کو نظر انداز کر دیتا ہے جب آپ اسے کوئی ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے وہ کرنا نہیں چاہتا۔ جب آپ بچے کو کسی کام سے منع کرتے ہیں تو وہ غصے میں رونا پیٹنا شروع کر دیتا ہے۔شاید آپ سوچیں کہ اِس عمر میں تو بچے ایسا کرتے ہیں۔ امید ہے کہ وہ بڑا ہو کر ایسا نہیں کریں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ آپ چھوٹے بچوں کو کہنا ماننا سکھا سکتے ہیں۔ بِلاشبہ ننھے بچے کو اپنے والدین کی توجہ کی مسلسل ضرورت ہوتی ہے۔چونکہ والدین اپنے ننھے بچے کے ناز نخرے اٹھاتے ہیں اس لیے بچے کو لگتا ہے کہ وہ گھر کا مالک ہے اور اس کے والدین کی زندگی کا مقصد بس اس کی خدمت کرنا ہے۔ لیکن پھر دو سال کی عمر کو پہنچتے پہنچتے بچے کو لگتا ہے کہ اس کا تختہ الٹ دیا گیا ہے۔ اب والدین کو اس کا نہیں بلکہ اسے والدین کا کہنا ماننا چاہیے۔ یہ بات بچے کے لیے بہت بڑا دھچکا ثابت ہوتی ہے۔ کچھ بچے تو اس وجہ سے بات بات پر غصہ کرنے لگتے ہیں اور کچھ تو اپنے ماں باپ کی بات سننے سے ہی انکار کر دیتے ہیں۔ اس صبر آزما گھڑی میں والدین کو ایک نیا کردار ادا کرنا چاہئے۔ انہیں اپنے اِختیار کو عمل میں لاتے ہوئے بچے پر واضح کرنا چاہئے کہ وہ اس سے کیا توقع کرتے ہیں۔آپ کا بچہ اسی صورت میں آپ کا کہنا مانے گا اگر آپ اس پر واضح کریں گے کہ اِختیار آپ کے ہاتھ میں ہے۔ لہٰذا پیار سے اپنے اِختیار کو استعمال کریں۔بچے کی اِصلاح کریں۔ اِصلاح ایسی تربیت ہے جس سے ایک شخص فرمانبرداری کرنا اور خود میں ضبط نفس پیدا کرنا سیکھتا ہے۔ یہ تربیت اکثر قوانین کی صورت میں دی جاتی ہے جنہیں توڑنے پر سزا ملتی ہے۔ بِلاشبہ والدین کو بچوں کی مناسب حد تک اصلاح کرنی چاہئے اور کبھی بھی ان پر تشدد یا ظلم نہیں کرنا چاہئے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ والدین بچے کی اصلاح اس طرح کریں کہ اسے اپنی غلطی کا
احساس ہی نہ ہو۔ بچے پر یہ واضح ہونا چاہئے کہ اگر وہ غلطی کرے گا تو اسے اس کے نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ یوں اسے خود میں تبدیلی لانے کی ترغیب ملے گی۔واضح ہدایات دیں۔ بعض والدین اپنے بچوں سے صرف درخواست کرتے ہیں کہ وہ ان کا کہنا مانیں ایسا کرنے سے بچوں کی نظر میں والدین کے اختیار کی اہمیت کم ہو سکتی ہے۔ انہیں یہ فیصلہ کرنے کی کھلی چھٹی بھی مل جاتی ہے کہ آیا وہ اپنے ماں باپ کی درخواست پر عمل کریں یا نہیں۔ لہٰذا اپنے اختیار سے دست بردار ہونے کی بجائے بچوں کو صاف سیدھے لفظوں میں ہدایات دیں۔اپنی بات پر ڈٹے رہیں والدین پہلے آپس میں طے کرلیں کہ بچے سے کیا کہیں گے اور پھر ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔ اگر آپ بچے کو بتاتے ہیں کہ فلاں کام کرنے پر اسے سزا ملے گی تو اپنی بات کو پورا کریں۔ بچے کو بحث نہ کرنے دیں اور نہ ہی لمبی چوڑی وضاحت کریں کہ آپ نے ایک فیصلہ کیوں کِیا ہے۔ بچوں کے ساتھ پیار سے پیش آئیں۔ خاندانی نظام میں قدرت کی طرف سے ایک ایسا بندوبست ہے جس کے تحت والدین اپنے بچوں کی پیار سے تربیت کرتے ہیں تاکہ وہ اچھی شخصیت کے مالک بنیں۔