نوم چومسکی نے حالیہ انٹرویو میں درس و تدریس کے عمل پر چھائی بوریت کا ذکر کرتے ہوئے اِسے ”وبا (بیماری)“ قرار دیا ہے اور شعبہئ تعلیم پر حاوی اِس نہایت ہی اہم پہلو کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”تعلیمی اداروں میں سیکھنے کا عمل دلچسپ بنانے کی ضرورت ہے جس کیلئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے نئے اسلوب یعنی مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹلی جنس) سے مدد لینے چاہئے جبکہ صورتحال یہ ہے کہ طلبہ میں کچھ نیا سیکھنے اور کچھ نیا ایجاد کرنے کے لئے اپنی ذہانت و صلاحیت (سوچ) پر انحصار کی بجائے کمپیوٹروں کی مصنوعی ذہانت سے استفادے کا رجحان ’وبائی‘ صورت بڑھ رہا ہے اُور اِس سے تعلیم و تحقیق اُور تحقیق و ترقی کے درمیان خلا (فاصلہ) پیدا ہو گیا ہے۔ یکساں اہم ہے کہ شعبہئ تعلیم کے فیصلہ سازوں کو نصاب تعلیم مرتب کرتے ہوئے درس و تدریس میں طلبہ کی دلچسپی بڑھانے پر بھی غور کرنا چاہئے۔ڈیسک ٹاپ و لیپ ٹاپ کمپیوٹرز‘ ٹیبلٹس اور موبائل فونز کلاس رومز کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ طلبہ کے لئے اساتذہ رول ماڈل ہوتے ہیں جنہیں دیکھتے ہوئے وہ بھی کسی موضوع پر تحقیق کے لئے آسانیوں کی تلاش میں رہتے ہیں اُور یہ کام بڑی حد تک مصنوعی ذہانت کے اسلوب نے کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طلبہ کی بڑی تعداد ’اے آئی بوٹس‘ کی جانب متوجہ ہو رہی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ’بوٹ‘ روبوٹ یعنی خودکار کام کرنے کے طریق کا مختصر تعارفی نام ہے۔ بوٹ سافٹ وئر پروگرام ہوتا ہے جو کسی بھی ویب سائٹس سے مطلوبہ نتائج (ڈیٹا) حاصل (اخذ) کر سکتا ہے اور اِس کی مدد سے سوال و جواب (پوچھ گچھ) کی صورت نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ اِنٹرایکٹو کلاس رومز‘ کسی بھی درجے کے کلاس ورک یعنی طلبہ کی مصروفیت کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ فیصلہ سازوں کو اِس پہلو سے بھی صورتحال کا جائزہ لینا ہوگا کہ درس و تدریس کا عمل اُور اِس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی خواندگی سے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے کیونکہ ’بوریت کشش کی موت ہوتی ہے‘ لہٰذا تدریس کے مندرجات اور روائتی طریقے پر حاوی بوریت کا علاج ضروری ہے جو ازخود نہیں ہوگا اُور نہ ہی اِس کے لئے گھریلو ٹوٹکے کام آئیں گے بلکہ طلبہ کو اپنے اپنے ذہنی و فکری رجحانات (میلان) کے مطابق مطالعے و فکر جیسی صلاحیتوں کو متحرک کرنے پر آمادہ کرنا پڑے گا‘ جو محنت طلب کام ہے اُور کسی معلم کی ذمہ داری اب درسگاہ کے اوقات ختم ہونے کے ساتھ تمام نہیں ہونی چاہئے۔تدریس کا عمل کیسے اور کیوں خراب (بوریت کا شکار) ہے؟ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی ماحول میں سوال پوچھنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی اور اکثر سوال پوچھنے والے کا مذاق اُڑایا جاتا ہے جو ایک منفی عمل ہے اور اِس کے باعث تعلیم کی مقصدیت مجروح اور اِس کا دم گھٹتا ہوا محسوس ہو رہا ہے کیونکہ اگر سوال پوچھنے ہی کی ممانعت ہوگی تو سیکھنے سکھانے کا عمل جامع نہیں ہوگا بلکہ یہ ایک زہر کی طرح تعلیم کی رگوں کی سرایت کرتا چلا جائے گا۔ جب کلاس روم میں سوال پوچھنے والے کا مذاق اڑایا جاتا ہے یا اسے نظر انداز کیا جاتا ہے‘ تو یقینی طور پر طالب علم کسی ایسے شخص یا کسی ایسے ذریعے کی طرف رجوع کرے گا جو اس کے سوالات کا تسلی بخش جواب دے سکے اُور وہ اُس کے سوالات کا مذاق بھی نہ اُڑائے۔ آج کی دنیا میں‘ یہ کام انٹرنیٹ سرانجام دے رہا ہے اور نہایت ہی مستعدی سے ایک اہم ضرورت پوری کر رہا ہے کیونکہ انٹرنیٹ نہ تو سوتا ہے اُور نہ ہی یہ بار بار ایک ہی سوال دہرانے پر ناراض ہوتا ہے بلکہ ایسے پروگرام بھی موجود ہیں جو کسی ایک سوال کے سینکڑوں درست جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 94 سالہ امریکی ماہر تعلیم و فلسفی نوم چومسکی نے خبردار کیا ہے کہ ”انٹرنیٹ پر کسی موضوع سے متعلق تلاش کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ ’بے ترتیب حقائق‘ جمع کر لئے جائیں اُور جب تک کسی معلم کی رہنمائی شامل حال نہیں ہوگی اِس قسم کی معلومات خاطرخواہ سودمند ثابت نہیں ہو سکتی۔“ المیہ ہے کہ تعلیم و بوریت ایک ہیں جنہیں ایک نہیں ہونا چاہئے اُور اِس بوریت کو ختم کرنے کے لئے جہاں معلم کے کردار اُور تدریسی سرگرمیوں کے دائرہ کار پر نظرثانی کی ضرورت ہے وہیں نصاب تعلیم کو بھی عصری تقاضوں اُور طلبہ کے تبدیل شدہ رجحانات کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے اُور اِس سلسلے میں نصابی اُور غیرنصابی کتب کی درجہ بندی (تقسیم) ختم ہونی چاہئے جو غیرمنطقی ہے۔