اقوام متحدہ کے رکن ممالک نے ’گہرے سمندروں کے تحفظ‘ کے لئے جاری طویل مذاکرات کے بعد ”پہلے بین الاقوامی معاہدے“ کے متن پر اتفاق کیا۔ پہلی ہی مرتبہ سمندروں کی اہمیت کا اجتماعی احساس اور اِسے گندگی سے پاک رکھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے اور یہ بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ سمندر انسانی بقا کے لئے ضروری‘ نازک و حساس اور قدرت کا اہم ترین خزانہ ہے جو کرہئ ارض کے آدھے سے زیادہ حصے پر محیط ہے۔اقوام متحدہ کی میزبانی میں ہوئی عالمی کانفرنس رواں ہفتے مغربی ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیوں میں رہی۔ کانفرنس کی چیئر پرسن ’رینا لی‘ نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں مقامی وقت کے مطابق رات ساڑھے نو بجے سے کچھ دیر قبل اعلان کیا کہ ”(انسانی شعور کا) جہاز ساحل پر پہنچ گیا ہے۔“ سمندروں کی حفاظت سے متعلق عالمی اتفاق رائے کی تفصیلات کیا ہیں اور اِس سلسلے میں مختصر متن میں کن الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے‘ یہ تفصیلات ابھی جاری نہیں ہوئیں لیکن گزشتہ 15 سال سے جاری کوششیں اور بحث جو کہ ”حیاتیاتی تنوع کے تحفظ“ کے بارے میں تھی بالآخر ایک مقام تک ضرور پہنچ گئی ہے اور اِسے ”اہم لمحہ“ قرار دیا گیا ہے۔ سمندروں کے تحفظ کے معاہدے کو نہ صرف سمندر بلکہ زمین پر موجود قدرتی وسائل کے تحفظ کے لئے اہم قرار دیا گیا ہے اور حالیہ معاہدہ درحقیقت گزشتہ برس (دوہزاربائیس) دسمبر میں ہوئے ایک ایسے ہی دستخط کا تسلط ہے جو مونٹریال (کینیڈا) میں ہوئے تاریخی معاہدے پر پیشرفت ہے۔تحفظ ماحول کے لئے عالمی اتفاق رائے ’تاریخی دن‘ اور اس بات کی علامت ہے کہ منقسم دنیا میں فطرت اور انسانوں سمیت ہم زمین جانداروں کا تحفظ ممالک کے اپنے اپنے مفادات اور عالمی جغرافیائی سیاست پر فتح حاصل کر سکتا ہے۔ مذکورہ معاہدہ ”سمندری زندگی اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے ساتھ آنے والی انسانی نسلوں کے لئے بھی ضروری ہے۔“ دو ہفتوں سے جاری بات چیت نتیجہ خیز ثابت ہونے کے بعد پانچ مارچ دوہزار تئیس کے روز متفقہ متن تیار کیا گیا اور پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق چھ مارچ دوہزار تئیس کی صبح اِس کی تفصیلات جاری کر دی گئیں۔ اگلے مرحلے میں ممالک کی سطح پر ہوئے اتفاق رائے کو باقاعدہ معاہدے کی شکل دینے سے قبل قانونی ماہرین اِس کا جائزہ لیں گے جبکہ اِس معاہدے کو اقوام متحدہ کی چھ سرکاری زبانوں (عربی‘ چائنیز‘ انگریزی‘ فرانسیسی‘ روسی اور اسپینش) میں ترجمہ بھی کیا جائے گا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے مندوبین کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”معاہدہ درحقیقت کثیر الجہتی اور سمندری صحت کو درپیش تباہ کن رجحانات کا مقابلہ کرنے کی عالمی کوششوں کی فتح ہے۔“ اونچے سمندر ممالک کے خصوصی اقتصادی زونز کی سرحد سے شروع ہوتے ہیں‘ جو ساحلی علاقوں سے 200 ناٹیکل میل (370 کلومیٹر) تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اس طرح وہ کسی بھی ملک کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے۔ اگرچہ اونچے سمندر دنیا کے سمندروں کا ساٹھ فیصد سے زیادہ اور سیارے کی سطح کے تقریبا نصف حصے پر مشتمل ہیں لیکن وہ طویل عرصے سے ساحلی پانیوں اور کچھ مشہور سمندری جانداروں کے تحفظ کے سلسلے میں بہت ہی کم توجہ حاصل کر پائے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ کرہئ ارض پر موجود آکسیجن جو کہ انسانوں اور دیگر جانداروں کے سانس لینے کیلئے ضروری ہے اِس کا نصف حصہ سمندر سے حاصل ہوتا ہے جبکہ انسانی سرگرمیوں سے پیدا (خارج) ہونیوالی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کا زیادہ تر حصہ سمندر میں جذب ہوتا ہے جس کی وجہ سے کرہ ارض کا درجہ بڑھنے کا عمل سست رہتا ہے جبکہ سمندروں میں آلودگی کم کرنے سے ماہی گیری کی صنعت اور مقامی کاروباری سرگرمیوں کا تحفظ بھی ممکن ہے سمندروں کے تحفظ کا عالمی معاہدہ نافذ العمل ہونیکی صورت بین الاقوامی پانیوں میں سمندری محفوظ علاقے تشکیل دیئے جائیں گے جو اہم کامیابی ہے کیونکہ سمندر کا وہ حصہ جو کسی بھی ملک کی حدود میں نہیں آتا اور اِسے ’عالمی پانی‘ کہا جاتا ہے کے تحفظ میں یہ معاہدہ کلیدی کردار ادا کرے گا۔ مذکورہ معاہدہ ممالک کو اس بات کا بھی پابند بنائے گا کہ وہ گہرے سمندروں میں سرگرمیوں کے ماحولیاتی اثرات کا جائزہ لیں‘نئے دریافت ہونے والے سمندری وسائل کے ممکنہ فوائد کے اشتراک سے متعلق انتہائی حساس باب تناؤ کے مرکزی نکات میں سے ایک رہا جس پر بالآخر قابو پا لیا گیا کیونکہ تین مارچ کو ختم ہونے والے مذاکرات چار مارچ کو ختم ہوئے یعنی بحث و مباحثہ ایک اضافی دن بھی کیا گیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک سمندر کے پانیوں میں تحقیق اور اُن کی حفاظت کے لئے مالی و تکنیکی وسائل نہیں رکھتے جبکہ ترقی یافتہ ممالک چاہتے ہیں کہ عالمی پانیوں پر اُن کی حکمرانی قائم رہے اور وہ عالمی پانیوں میں موجود مچھلی و دیگر زیرسمندر قدرتی وسائل سے تن تنہا استفادہ کرتے رہیں کیونکہ ایسا کرنے میں اُنہوں نے سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ سمندر کے گہرے پانیوں سے حاصل ہونے والے وسائل دواسازی‘ کیمیائی مادوں کی تخلیق اور دیگر ایسی مہنگی اشیاء استعمال کرنے میں بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ دیگر بین الاقوامی فورمز کی طرح‘ موسمیاتی مذاکرات عالمی جنوب کے غریب اور عالمی شمال کے امیر ممالک کے درمیان مساوات قائم کرنے کو بھی یقینی بنائے گی۔ سمندروں کی حفاظت سے متعلق معاہدے کو امیر و غریب ممالک کے درمیان اعتماد پیدا کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور اِس اقدام کی یورپی یونین معاہدے نے توثیق کی ہے جس کے جلد نفاذ میں سہولت کے لئے نیویارک میں چالیس ملین یورو (بیالیس ملین ڈالر) بطور امداد دینے کا وعدہ کیا گیا ہے‘یورپی یونین نے سمندروں کے بارے میں تحقیق‘ نگرانی اور تحفظ کے لئے مجموعی طور پر 860 ملین ڈالر جبکہ پاناما ممالک نے مجموعی طور پر 19ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ سال 2017ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں رکن ممالک سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ گہرے سمندروں کے تحفظ کے لئے اتفاق رائے سے کسی ایسے نتیجے تک پہنچیں جو ماحول دوست ہو۔ اس سلسلے میں ابتدائی طور پر چار مذاکراتی اجلاس ہوئے جو نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے اور پھر دو اضافی اجلاس کرنا پڑے۔ بالآخر یہ کوششیں کاغذی حد تک تو کامیاب ثابت ہوئی ہیں اور اب دیکھنا یہ ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سمندروں کی حفاظت سے متعلق اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے (حقیقی تبدیلی) کیلئے کتنی سنجیدگی سے آگے بڑھتے ہیں۔