سادگی اور تکلفات سے عاری زندگی وہ بہترین طرز عمل ہے جو کسی بھی معاشرے کا حصہ بن جائے تو وہاں پر معاشی مشکلات اور مسائل نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں۔اس وقت ہم کفایت شعاری کی پالیسی کے حوالے سے سنتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ یہ وقت کی ضرورت بھی ہے، اعتدال اورکفایت شعاری کوئی ناقابل عمل پالیسی نہیں بلکہ یہ تو دینی تعلیمات کا حاصل بھی ہے، ستم ظریفی تو یہ ہے کہ انہی اصولوں کو اغیار نے اپنے لئے مشعل راہ بنالیا آج وہ دنیا بھرپر حکمرانی کر رہے ہیں ہم نے اسلامی تعلیمات کو بھلا دیا اور ہم سے ہفت اقلیم کی حکمرانی چھن گئی اور تمام وسائل دستیاب ہونے کے باوجود دوسروں کی امداد کے محتاج بن چکے ہیں۔ دنیا کی سب سے طاقتور ترین سیاسی شخصیت امریکی صدر رونالڈ ریگن کا بے روزگار بیٹا اپنے والد کے دور حکومت میں بینک کے باہر قطار میں کھڑے ہوکر بے روزگاری وظیفہ لیتا رہا۔ برطانوی وزیراعظم اپنی سرکاری گاڑی خود چلاتے ہیں اور ٹریفک سگنل پر قطار میں کھڑے ہوکر سگنل کھلنے کا انتظار کرتے ہیں۔میرے استاد محترم مکرم علی خان شیروانی کہا کرتے تھے کہ کچھ عرصہ قبل پاکستان کا ایک سرکاری وفدآسٹریا کے دورے پر گیا تھا۔ آسٹریا کے وزیراعظم نے پاکستانی وفد کو ناشتے کی میز پر ملاقات کے لئے وقت دیا۔ صبح آٹھ بجے ملاقات کا وقت طے ہوا۔ پاکستانی وفد کے تمام ارکان مقررہ وقت پر وزیراعظم ہاوس پہنچے۔ مگر میزبان موجود نہیں تھے۔ آدھ گھنٹہ انتظار کے بعد میزبان وزیراعظم اپنے دفتر پہنچ گئے۔ سیدھا سٹیج پر جاکر ماتھے سے پسینہ پونچتے ہوئے کہا کہ میں وعدے کے مطابق مقررہ وقت پر نہیں پہنچ سکا۔ مجھے کچھ ہنگامی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔مجھے امید ہے کہ میری روداد سن کرآپ مجھے تاخیر سے آنے پر معاف کریں گے۔ دراصل رات کو بیگم کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی،انہیں لے کر ہسپتال چلا گیا، جہاں اسے داخل کردیا گیا، ساری رات ان کے ساتھ ہسپتال میں رہا، صبح سویرے بیگم کو ہسپتال میں ہی چھوڑ کر گھر آگیا، بچوں کو اٹھایا، ان کے کپڑے استری کئے، ان کے لئے ناشتہ بنایا۔انہیں تیار کرکے سکول چھوڑ آیا۔ اس وجہ سے مجھے آنے میں آدھا گھنٹے تاخیر ہوئی۔مہمان اپنے میزبان کی روداد سن کر ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے۔ سادگی کی ایسی مثال شاید ہی کوئی حکمران پیش سکے۔
قائد اپنی قوم کے لئے رول ماڈل ہوتا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں ہر شخص اپنا ذاتی کام خود کرتا ہے۔اپنے فرائض منصبی پوری تندہی، دیانت داری اور لگن سے ادا کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ قومیں ترقی کی منازل طے کرتی جارہی ہیں‘ہمارے حکمران بھی اگر عالیشان محلات،قیمتی گاڑیوں، اور وی وی آئی پی طرز زندگی کو چھوڑ کرسادگی اختیار کریں اور پوری قوم کے لئے نمونہ بن جائیں اپنی چادر کے مطابق پاؤں پھیلائیں اپنے وسائل پر انحصار کریں اور اپنی ذات پر قوم کے مفادات کو ترجیح دیں تو ہم بھی چند سالوں میں ترقی یافتہ اور باوقار اقوام کی صف میں شامل ہوسکتے ہیں۔