دنیائے فن کا ایک درخشندہ ستارہ65سال تک مختلف کرداروں میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا جو ہر دکھانے کے بعد غروب ہوگیا۔ مردم خیز سرزمین پشاورنے برصغیر کے ان فن کاروں کو جنم دیا۔جنہوں نے پوری دنیا سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوالیا۔ ان میں دلیپ کمار، شاہ رخ خان، راج کپور، رنگیلا اور محمد قوی خان بھی شامل ہیں‘ 13نومبر 1942کو پشاور میں پیدا ہونے والے محمد قوی خان کا تعلق پشتو ن قوم کے یوسف زئی قبیلے سے تھا۔انہوں نے ریڈیو پاکستان پشاور سے چائلڈ ایکٹر کے طور پراپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔ایڈورڈ کالج پشاور میں تعلیم کے دوران بھی وہ ادبی پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔یہیں سے ان میں چھپے فن کار کا کھوج لگالیاگیا‘1965میں قوی خان کا خاندان پشاور سے لاہور منتقل ہوگیا‘ 1966 میں قوی خان نے لاکھوں میں تین نامی فلم سے بڑی سکرین پر اپنے فنی سفر کا باقاعدہ آغاز کیا۔ انہوں نے 200سے
زائد فلموں،سٹیج اور ٹیلی وژن کے ڈراموں میں کام کیا۔ بہترین اداکاری پر انہیں 1980میں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی اور 2012میں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔انہیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ، پی ٹی وی بیسٹ ایکٹر ایوارڈ اورتین مرتبہ نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔ محمد قوی خان نے فلم پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کے طور پر بھی کام کیا۔ ان کی یادگار فلموں میں نیند ہماری خواب تمہارے، مٹی کے پتلے، محبت زندگی ہے، سوسائٹی گرل، بدتمیز، بیگم جان، سرفروش،سرکٹا انسان، رانگ نمبراور پری شامل ہیں۔ بڑی سکرین کے علاوہ قوی خان نے ٹیلی وژن سکرین پر اپنے گہرے نقوش چھوڑے۔ ان کے بہترین ڈراموں میں دہلیز، الف نون، اندھیرا اُجالا، انگار وادی، اُڑان، آشیانہ، سسر ان لا، مٹھی بھر مٹی، منچلے، داستان، میرے قاتل میرے دلدار، پھر چاند پہ دستک،الف اللہ اور انسان، آنگن، میراث، زیبائش، چپکے چپکے، پریم گلی، پہچان، بادلوں پر بسیرا، بلندی، ریزہ ریزہ، دن،میرزا اینڈ سنز،میری بہن میری دیوانی،میاں بابا کھلاڑی اور حال ہی میں نشر ہونے والا ڈرامہ میری شہزادی شامل ہیں۔چھ عشروں تک فلم اور ٹیلی وژن سکرین پر راج کرنے والا پشاور کا محمد قوی خان کینیڈا میں موذی مرض سرطان میں مبتلا ہونے کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جاملا۔ اور وہیں مدفون ہوئے۔انہوں نے 81سال کی عمر پائی۔ اپنی جاندار اور شاندار اداکاری کی بدولت
انہوں نے اپنے کرداروں کا زندہ جاوید کردیا۔ وہ پرکشش شخصیت کے مالک تھے‘ جو بھی کردار انہیں ملتا۔ اس میں ڈوب جاتا اور ان کی اداکاری پر حقیقت نگاری کا گمان ہوتا تھا۔تھانہ کلچر پر مبنی ڈرامے اندھیرا اُجالا میں ان کے ڈائیلاگ آج بھی لوگوں کو یاد ہیں۔قوی خان نے فلم، سٹیج اور ٹی وی ڈراموں میں جو بھی کردار ادا کیا۔ اپنے کردار کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا۔ ان کی فن کاری میں معاشرے کی جھلک صاف نظر آتی تھی‘ انہوں نے اندھیرا اُجالا میں ایک فرض شناس اور دیانت دار پولیس آفیسر کا کردار نہایت خوبی سے نبھایا۔اس ڈرامے میں روایتی تھانہ کلچر کی نہایت خوبی سے عکاسی کی گئی تھی۔جس میں طنز و مزاح بھی تھا اور اصلاح کا پہلو بھی تھا۔ انگار وادی میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت اور مظلوم کشمیریوں کی حالت زار کی عکاسی کی گئی تھی۔ قوی خان نے فلم، سٹیج اور ٹیلی وژن پر مختلف کرداروں کے ذریعے معاشرے کے سلگتے مسائل کی نشاندہی کی ہے۔