روس چین دوستی: عالمی جنگ

چین کے صدر ’شی جن پنگ‘ نے روسی ہم منصب ’ولادیمیر پیوٹن‘ کو ”بہترین دوست“ قرار دیا ہے اور چین روس دوستی بالآخر اُس مقام تک آ پہنچی ہے جہاں روس کو چین سے ”فوری مدد“ کی ضرورت ہے‘ روسی فوج کیلئے یوکرین کا محاذ ناقابل شکست ثابت ہو رہا ہے اور اگر مغربی ذرائع ابلاغ میں شائع و نشر ہونے والی اطلاعات پر ’سو فیصد یقین‘ نہ بھی کیا جائے تب بھی روس اپنے وسائل سے تن تنہا جبکہ یوکرین یورپی ممالک اور امریکہ کی جانب سے ہتھیاروں کی فراہمی ہو رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ روس کو ’گولہ بارود کی کمی‘ کا سامنا ہے‘ اِس صورتحال میں اہمیت کا حامل یہ سوال ہے کہ کیا چین کے صدر ’شی جن پنگ‘ روس کو اسلحہ فراہم کرکے ثابت کریں گے کہ وہ واقعی روس کے دوست ہیں؟ دوسری طرف امریکہ اور اُس کے اتحادی ممالک کی نظریں چین پر ٹکی ہوئی ہیں جو چینی مصنوعات کی منڈیاں ہیں اور اگر چین روس کو اسلحہ فراہم کرتا ہے تو اِسے تجارتی پابندیوں یا بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ روس کو اسلحے کی فراہمی کا انتخاب اس بات کی بھی نشاندہی کرے گا کہ چین امریکہ کے ساتھ مستقبل میں کس طرح کے تعلقات کا خواہاں ہے اور وہ امریکہ کی جانب سے بارہا اظہار کی گئی دشمنی سے نمٹنے کیلئے کس قسم کی  منصوبہ بندی کئے ہوئے ہے جبکہ روس کو ہتھیار نہ دینے کا فیصلہ اس بات کی نشاندہی کرے گا کہ چین اب بھی اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ امریکہ کیساتھ اُس کے تناؤ پر قابو پایا جا سکتا ہے جو اُس کی عالمی تجارت کیلئے مفید ہوگا۔ چین روس کو کس قدر اہمیت دیتا ہے اِس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کیونکہ صدر شی نے صدر پیوٹن سے جس قدر ملاقاتیں کی ہیں اتنی ملاقاتیں اُنہوں نے کسی دوسرے ملک کے عالمی رہنما سے نہیں کیں۔ چین کبھی بھی روس میں ایسی کوئی بھی تبدیلی نہیں چاہے گا جس میں صدر پیوٹن کا زوال ہو اور اُن کی جگہ کوئی مغرب نواز روسی رہنما کا انتخاب کیا جائے کیونکہ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ چین کے ’بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو نامی تجارتی توسیعی حکمت عملی کیلئے بھی خطرہ ہوگا لہٰذا جب چین کا صدر یہ کہتا ہے کہ وہ روسی صدر کا دوست ہے تو اِس کا مطلب وہ صدر پیوٹن کو برسراقتدار دیکھنا چاہتا ہے اور اگر صدر پیوٹن برسراقتدار رہتے ہیں‘ تب بھی اُنہیں مضبوط بنانا ہوگا تاکہ وہ امریکہ کے خلاف چین کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہو سکیں اور اگر امریکہ 
و اِس کے اتحادی یورپی ممالک چین کا اقتصادی بائیکاٹ کر بھی دیں تو چین الگ تھلگ نہ ہو۔ دوسری طرف چین کی قیادت کے ذہن میں یہ خوف بھی پایا جاتا ہے کہ اگر امریکہ روس یوکرین جنگ سے فارغ ہوا تو اُس کی توجہ اور فوجی وسائل کا رخ بیجنگ کی طرف ہو جائے گا لہٰذا عافیت اِسی میں ہے کہ امریکہ اور روس براہ راست اُلجھے رہیں اور اِن حالات میں روس کو کمزور نہ ہونے دیا جائے۔ چین کے پاس روس کی حمایت جیسا خطرہ مول لینے کیلئے مزید دو وجوہات بھی ہیں۔ پہلا یہ کہ صدر شی جن پنگ کے قریبی مشیروں کی رائے میں چین اپنے خلاف عالمی محاذ آرائی کے خطرے پر قابو پا سکتا ہے اُور جب امریکہ یہ سمجھ لے گا کہ چین روس کو یوکرین کے محاذ پر ہارنے نہیں دے گا تب امریکہ اور اِس کے اتحادی یوکرین پر زور دیں گے کہ وہ روس کیلئے قابل قبول شرائط پر اُس کیساتھ ’امن سمجھوتہ‘ کر لے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ چین اقتصادی طور پر اِس حد تک مضبوط ہے کہ وہ موجودہ صورتحال میں عالمی تنازعے کا خطرہ مول لے سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ چین براہ راست محاذ آرائی پہلے ہی شروع ہو چکی ہے اور خود امریکہ کے خفیہ ادارے کا یہ بیان ’آن دی ریکارڈ‘ ہے کہ صدر شی جن پنگ چینی فوج کو سال 2027ء تک تائیوان پر حملے  کی تیاری کرنے کا حکم دے چکے ہیں جبکہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن ایک سے زیادہ مرتبہ یہ کہتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ اگر چین نے تائیوان پر حملہ کیا تو امریکہ تائیوان کا دفاع کرے گا یقینا چین کی جانب سے جنگ کی تیاری اور حملے کا پختہ فیصلہ دو الگ الگ باتیں ہیں لیکن امریکہ اور اِس کے اتحادی یورپی ممالک چین کی جنگی تیاریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے روسی جنگ کی حمایت کرنے کو عملاً قریب دیکھ رہے ہیں۔ چین کے لئے روس کی حمایت میں ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اگر وہ امریکہ اور 
مغربی ممالک کو یوکرین کی مزید فوجی مدد کرنے پر مجبور کرتا ہے تو اِس سے امریکہ اور مغربی ممالک کیلئے تائیوان پر چینی حملے کی صورت زیادہ شدت سے جواب دینا ممکن نہیں ہوگا اور وہ باوجود خواہش بھی تائیوان کا دفاع نہیں کر پائیں گے کیونکہ اُن کے وسائل پہلے ہی ایک جنگ میں استعمال ہو رہے ہوں گے! چین کی جانب سے روس کو اسلحہ فراہم کرنے کے چند منفی پہلو بھی ہیں۔ امریکہ میں پہلے ہی چین مخالف سوچ پائی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ چین پر امریکہ مختلف طریقوں سے پہلے ہی دباؤ بنائے ہوئے ہے جیسا کہ امریکہ نے چین کو ایسی برآمدات پر پابندی عائد کر رکھی ہے جن کا تعلق ٹیکنالوجی سے ہے اور وہ اِن پابندیوں کو زیادہ وسیع کر سکتا ہے جس میں چین سے درآمدات بھی شامل ہو سکتی ہیں۔ اگر چین نے روس کو ہتھیار فراہم کئے تو بیجنگ کی وہ کوششیں ناکام ہو جائیں گی جو یورپی یونین اور امریکہ کے درمیان خلیج پیدا کرنے کے لئے کی جا رہی ہیں اور روس کے لئے چینی فوجی حمایت کو یورپ کی سلامتی کے لئے براہ راست خطرے کے طور پر دیکھا جانے لگے گا۔ چین کیساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے تعلقات پر یورپی یونین کی یقینی پابندیاں عائد ہو جائیں گی۔ چین جانتا ہے کہ مغربی ممالک کے صارفین اُس کی مصنوعات پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں اور اُس کے لئے مکمل طور پر اِن ممالک سے معاشی و تجارتی علیحدگی سودمند نہیں ہو گی کیونکہ اگر یورپی ممالک کے ساتھ چین کی تجارت میں پچیس تیس فیصد جیسی معمولی کمی بھی آئی تو اِس سے چین میں بے روزگاری بڑھے گی جو ایک ایسی حکومت کے لئے تشویش کا باعث ہوگی جو کورونا وبا سے نمٹتے ہوئے نہیں چاہے گی کہ چینی عوام میں بے چینی پھیلے۔ امریکہ کے مقابلے یورپی ممالک چین کے لئے دل میں زیادہ نرم گوشہ رکھتے ہیں اور اُن کی خواہش ہے کہ موجودہ صورتحال میں چین ایک ناخوشگوار سمجھوتے کا انتخاب کرتے ہوئے یوکرین میں اپنی خدمات ”غیر جانبدار امن ثالث“ کے طور پر پیش کرے۔ اِس سے قبل جرمنی کے چانسلر اولاف شولز بھی اِسی قسم کی کوشش کر چکے ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ ”روس کو اسلحہ فراہم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔“ چین کیلئے امریکہ و یورپی ممالک کا مقابلہ کرنے سے بہتر ہے کہ وہ ایران یا شمالی کوریا کے ذریعے بالواسطہ طور پر روس کو ہتھیار فراہم کرے۔