سیاحتی ترقی کے لئے ’ہیریٹیج ٹیک انڈسٹری‘ کا قیام انتہائی ضروری ہے جس کے ذریعے فنون لطیفہ اور تاریخی اثاثوں کو دستاویزی شکل دیتے ہوئے محفوظ کیا جاتا ہے اور اِسی کے ذریعے محفوظ کئے گئے اثاثوں کی نمائش بھی کی جاتی ہے۔ اِس ’نوزائیدہ صنعت‘ کی چھتری تلے ورثے کے تحفظ‘ آثار قدیمہ‘ تاریخ‘ سیاحت‘ لوک داستانوں‘ علاقائی زبانوں‘ موسیقی‘ فنون لطیفہ‘ تخلیقی شعبوں‘ ذرائع ابلاغ‘ ٹیکنالوجی اور ثقافت سے وابستہ ماہرین اور ادارے آتے ہیں۔ جب ہم ’ہیریٹیج ٹیک انڈسٹری‘ کی بات کرتے ہیں تو اِس کا حوالہ کوئی انجان یعنی غیر معروف اسلوب نہیں ہوتا بلکہ وہ سبھی زیراستعمال ٹیکنالوجیز مراد ہوتی ہیں‘ جو آگمنٹڈ رئیلٹی (اے آر)‘ ورچوئل رئیلٹی (وی آر)‘ بلاک چین اور این ایف ٹی کہلاتی ہیں اور اِن کا استعمال فروغ پا چکا ہے۔ گردوپیش میں دیکھیں کہ کس طرح ہر جگہ ڈیجیٹلائزیشن ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لئے امید افزا کردار ادا کر رہی ہے بالخصوص تعلیمی شعبے میں ٹیکنالوجی کا استعمال ہر دن بڑھ رہا ہے اور وہ دن دور نہیں جب نصاب تعلیم کاغذ و کتب کی بجائے آئی کلاوؤڈ کے ذریعے کمپیوٹروں‘ ٹیبلٹس اور موبائل فونز میں سما جائے گا۔ اِس کوشش میں اگرچہ قدیم تاریخوں کو محفوظ کرنے کے موجودہ طریقہ ہی معیار رہے گا لیکن ورثے کی سائنس کو ٹیکنالوجی سے جوڑنا ضروری ہے۔ ثقافتی ورثے کے تحفظ میں مدد کے لئے ٹیکنالوجی کے استعمال کے لئے کثیر الجہتی نقطہ نظر کو قومی بحث کا حصہ ہونا چاہئے۔
پاکستان میں ورثہ اور تاریخ و ثقافت ترجیح نہیں اور اِن شعبوں کو مسائل و خطرات لاحق ہیں جن کے ’تکنیکی حل‘ تلاش کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے ثقافتی ورثے کے مقامات تو محفوظ ہیں لیکن اُن کے کوائف و حالات سے متعلق محفوظ ریکارڈ نہ تو جدید ترین (اپ ڈیٹیڈ) ہے اور کچھ صورتوں میں تو تفصیلاً موجود بھی نہیں‘ جس کے نتیجے میں ورثہ قرار دیئے گئے مقامات رو بہ زوال ہیں جنہیں باآسانی تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اِن مقامات کی تزئین و آرائش اور دیکھ بھال میں غفلت ثقافتی ورثے کو موسمیاتی اثرات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتی ہے جو اِن کے مخدوش (شکستہ و ریخت) ہونے اور بعدازاں تباہی کا باعث بن جاتے ہیں۔ ثقافتی مقامات کی اکثریت جغرافیائی طور پر آبادی کے مراکز سے دور ہونے کی وجہ سے ناقابل رسائی ہوتے ہیں اور اگر اِن کا ریکارڈ و کوائف محفوظ رکھے جائیں تو مختلف شعبوں کے ماہرین بالخصوص طلبہ و محققین کے لئے اِن مقامات (سائٹس) تک رسائی آسان ہو جاتی ہے۔ تاریخی مقامات کے متناسب اور جمالیاتی تعلقات کو کمپیوٹر ایڈڈ ڈیزائن کے ساتھ نقل بھی کیا جاسکتا ہے۔ ڈرائنگ‘ پوائنٹ کلاؤڈز اور ڈیجیٹل ماڈل ان کی نقل کرنے کے لئے بہترین و کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں۔ اگرچہ حقیقت یہ ہے کہ ’شنیدہ کی بود مانند دیدہ‘ یعنی کسی جگہ کا دورہ کرنا کمپیوٹر سکرین پر اُسے دیکھنے کے مساوی نہیں ہو سکتا لیکن ٹیکنالوجی کا استعمال تحقیق اور تعلیمی مقاصد اور تحفظ میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔
پاکستان کے ثقافتی و تاریخی ورثے کے تحفظ کی کوششیں نہایت ہی سست روی سے جاری ہیں کیونکہ اِس شعبے کو بہت ہی کم مالی وسائل (ترقیاتی فنڈز) ملتے ہیں۔ اگر ویب تھری پوائنٹ زیرو سے استفادہ کیا جائے جو کہ ’ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی‘ ہے تو اِس سے ’ہیریٹیج ٹیک‘ کے شعبے میں کامیابیاں حاصل کی جا سکتی ہیں۔ ایسا کرنے سے نہ صرف سرمایہ کاری‘ بہترین پی آر اور سافٹ پاور پروجیکشن کو فروغ ملے گا بلکہ اس سے تاریخ و ثقافت اور آثار قدیمہ سے متعلق مضامین و موضوعات میں دلچسپی بھی بڑھے گی۔ موجودہ پاکستان کئی تہذیبوں کا مسکن اور کئی طاقتور و حاکم ثقافتوں کا گہوارہ ہے۔ پاکستان اپنی پوری تاریخ کو اپنا قرار دے سکتا ہے اور ایسا اِسے ضرور کرنا چاہئے۔ ورثے کو تسلیم کرنا ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کی طرف پہلا قدم ہوتا ہے جو خود اِس کی اہمیت و افادیت سے آگاہ ہو۔ وہ قومیں جو ڈیجیٹل شناخت کو برقرار رکھنے اور تعمیر کرنے میں ناکام رہتی ہیں وہ ڈیجیٹل دنیا میں گمنامی جیسے خطرے کا سامنا کرتی ہیں۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ تاریخ و ثقافت اور آثار قدیمہ سے متعلق عالمی تصورات کے ساتھ پاکستان کو آگے بڑھنا ہے اور اگر ’ہیئرٹیج ٹیک انڈسٹری‘ کے ساتھ پاکستان آگے بڑھتا ہے تو یہ دنیا کے شانہ بشانہ رہے گا اور سیاحوں کو متوجہ بھی کر سکے گا۔ کسی بھی دوسرے شعبے کی طرح تاریخ و ثقافت سے متعلق بھی معلومات کا خلأ سودمند نہیں ہوتا اور اِس سے غلط معلومات پھیلنے جیسے خطرات الگ سے رہتے ہیں۔ پاکستان اپنے ثقافتی ورثے سے متعلق معلومات کے تحفظ‘ کیوریشن اور پھیلاؤ کے لئے ویب تھری پوائنٹ زیرو نامی ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے ایک ہی مسئلے کے متعدد حل تلاش کرسکتا ہے۔ قوم کی تعمیر کے علاوہ‘ یہ عالمی سطح پر سافٹ پاور پروجیکشن کے لئے بھی کام آ سکتا ہے۔ اس سے یہ فائدہ بھی حاصل ہوگا کہ پاکستان خود کو ترقی پذیر ملک کے طور پر مارکیٹ کر سکے گا جسے ممکن (آسان) بنانے کے لئے ’اُبھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز‘ سے استفادہ ہونا چاہئے جن کی لاگت کم لیکن کارکردگی مؤثر ہے اور یہ ماحولیاتی طور پر ایک پائیدار ورثے کے تحفظ کی بین الاقوامی شراکت داری کا حصہ بھی ہیں۔ تاریخ و ثقافت اور آثار قدیمہ کے تحفظ کی کوششوں میں سرکاری ادارے جامعات کے ساتھ مل کر جامع حکمت عملیاں مرتب کر سکتے ہیں۔ ایسا دنیا بھر کے ثقافتی ادارے‘ عجائب گھر اور کارپوریٹ شعبہ کرتا ہے۔ ’ہیریٹیج ٹیک سیکٹر‘ ہی مستقبل کی ضروریات کے لئے کافی ہو سکتا ہے جس کے لئے تفصیلی فریم ورک کا نقشہ تیار کر کے تکنیکی حل اور قابل عمل سرمایہ کاری کے امکانات (ماڈلز) تیار کئے جا سکتے ہیں۔جدید ٹیکنالوجی سے جہاں سیاحت کے شعبے میں استفادہ کیا جا سکتا ہے وہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی ٹیکنالوجی کی مدد سے انقلابی اقدامات کئے جا سکتے ہیں خاص کر ایسے حالات میں کہ جب ملک و معیشت کو سہارا دینے کی ضرورت ہے ٹیکنالوجی کے فروغ سے بڑھ کر کوئی سہارا ممکن نہیں۔