پاکستان میں ”پالتو“ کے طور پر رکھے جانے والے جنگلی جانوروں میں سانپ‘ اگوانا‘ پینگولین اور مختلف اقسام کے پرندے شامل ہیں‘ جن میں سے کچھ کا تعلق دیگر ممالک سے ہے اور اِن جانوروں کو رکھنے کے لئے قوانین و قواعد بھی موجود ہیں جن پر خاطرخواہ سختی کے ساتھ عمل درآمد نہیں ہوتا۔ الگ موضوع ہے کہ پالتو جانوروں سے متعلق قوانین و قواعد خاطرخواہ واضح (جامع) نہیں اور یہ ہر صوبے میں مختلف بھی ہیں جبکہ جانوروں کے حقوق کا تحفظ کرنے والی تنظیموں کا مؤقف ہے کہ اِس سلسلے میں قوانین کو جامع (پراثر) بنایا جائے۔ قوانین کے جامع ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اِن کے تحت مختلف صورتوں کا احاطہ کرتے ہوئے ایسی سزائیں مقرر کی جائیں جن کے خوف کی وجہ سے کوئی بھی جانوروں کے لئے ایذا رسانی کا باعث نہ بن سکے۔ موجودہ شکل میں ’وائلڈ لائف آرڈیننس 1979ء‘ جنگلی جانوروں پر تشدد یا اُنہیں پکڑنے کی ممانعت کرتا ہے۔ اِن کے شکار‘ ایک مقام سے دوسرے مقام منتقلی اور اِن کی درآمد پر بھی پابندیاں عائد ہیں جبکہ مجاز سرکاری اہلکاروں کو یہ اختیار ہے کہ اگر کوئی شہری جنگلی جانور رکھنے کا خواہشمند ہو تو اُسے اجازت نامہ جاری کیا جائے اور یہ سرکاری اہلکار یہ اختیار بھی رکھتے ہیں کہ بنا اجازت (وارنٹ) کے کسی بھی جگہ کی تلاشی لے سکتے ہیں۔ مذکورہ آرڈیننس میں ایسے محفوظ جانوروں کی لمبی فہرست دی گئی ہے جن کا ”شکار یا جنہیں مارنا یا پکڑنا ممنوع ہے“ اِن میں پیلکن‘ فلمینگو‘ گیز اور ہنس جیسے پرندوں سے لے کر ہرن‘ اوٹر‘ پینگولین اور چیتے جیسے کئی ممالیہ جانور شامل ہیں لیکن اگر کوئی شہری شیر (lion) بطور پالتو جانور رکھنا چاہتا ہے تو ایسی صورت میں قوانین میں وضاحت موجود نہیں۔ جنگلی اور غیر ملکی جانوروں سے متعلق تمام شقوں کو پاکستان کے مجوزہ وفاقی قانون (نیچر بل) میں شامل کیا گیا ہے لیکن یہ قانون گزشتہ تین سال سے منظوری کا منتظر ہے۔ وزارت موسمیاتی تبدیلی کے تحت کام کرنے والا سرکاری ادارہ سال دو ہزار پندرہ میں اسلام آباد وائلڈ لائف آرڈیننس کی دفعہ چار کے تحت قائم کیا گیا‘ جس کی ویب سائٹ پر دعویٰ کیا گیا ہے کہ اِس نے اپنے قیام کے بعد سے جنگلی جانور رکھنے کا ایک بھی اجازت نامہ (لائسنس) جاری نہیں کیا۔ پاکستان میں کتنے لوگوں کے پاس جنگلی یا غیر ملکی پالتو جانور ہیں اس بارے میں سرکاری اعداد و شمار دستیاب نہیں تاہم سوشل میڈیا پر ایسے واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ شیر اور چیتے سمیت حیوانات کو پالتوجانوروں کے طور پر رکھا گیا ہے۔ پنجاب کی صوبائی حکومت شیر‘ چیتے یا دیگر ملکی و غیرملکی جنگلی جانوروں کو بطور پالتو جانور رکھنے کے اجازت نامے (لائسنس) جاری کرتی ہے لیکن ایسی صورت میں اِس بات کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا کہ لوگ پالتو جانوروں سے بدسلوکی نہیں کرتے۔ قانون میں ایسا کچھ بھی نہیں جو یہ کہتا ہو کہ پالتو جانور کے ساتھ بدسلوکی نہیں کرنی چاہئے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ جنگلی یا غیرجنگلی پالتو جانور اُن سے شائستہ سلوک روا رکھا جانا چاہئے۔
سندھ نے جولائی دوہزاربیس میں پرندوں کی 326 اقسام‘ رینگنے والے جانوروں کی ایک سو سات اقسام اور دیگر جانوروں کی بیاسی اقسام کے تحفظ کے لئے ’نیا وائلڈ لائف قانون‘ نافذ کیا تھا۔ سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن‘ پریزرویشن‘ کنزرویشن اینڈ مینجمنٹ ایکٹ 2020ء کے نام سے یہ قانون گزشتہ قانون کے تقریبا پچاس سال بعد سامنے آیا جس میں صرف پینتالیس اقسام کے پرندوں اور جانوروں کو تحفظ فراہم کیا گیا۔ مذکورہ قانون میں دیگر چیزوں کے علاوہ نیشنل پارک‘ گیم ریزرو اور جنگلی حیات کی پناہ گاہ کے قیام کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ شکار کو ریگولیٹ کرنا اور جانوروں کی درآمد و برآمد سے متعلق جرائم کی تفصیلات اور سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ مذکورہ قانون کے تحت جنگلی حیات پر کسی بھی قسم کے قانونی قبضے کو کئی سخت شرائط کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے جیسا کہ ماضی میں ”منی چڑیا گھر“ کے قیام کے لئے اجازت نامہ جاری کیا جاتا رہا ہے لیکن اس کے ساتھ شرائط کا ذکر نہیں کیا جاتا۔ تاہم اب ترامیم تجویز کی گئی ہیں جیسا کہ غیر ملکی بڑی بلیوں کو قانونی طور پر رکھنے کے لئے اُنتالیس شرائط عائد ہیں جن میں سے ایک کے تحت مالک کو جانور کا ڈی این اے سرٹیفکیٹ بھی حاصل کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ بڑی بلیوں کی درآمد کے لئے کوئی نئی درخواست قبول نہیں کی جائے گی۔ یہ اجازت نامہ شہریوں کو رہائشی علاقوں میں بڑی بلیاں رکھنے سے بھی روکتا ہے اور درخواست دہندہ کو متعلقہ یونین کونسل‘ ٹاؤن کمیٹی اور کنٹونمنٹ بورڈ سے این او سی حاصل کرنا ہوگا۔پالتو جانوروں کے حقوق کے حوالے سے خیبرپختونخوا کی صورتحال ملک کے دیگر حصوں سے زیادہ مختلف نہیں البتہ کاغذی طور پر صوبائی حکومت نے نجی افزائش نسل کی سہولیات کو کنٹرول کرنے کے لئے سخت قوانین متعارف کرائے ہیں۔ گزشتہ سال بریڈنگ فیسیلٹی رولز کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا جس کے تحت ایسی تمام سہولیات کی محکمہ کے پاس رجسٹریشن اور رکھے جانے والے جانوروں کے لئے ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ یہ قواعد ”خیبر پختونخوا وائلڈ لائف اینڈ بائیو ڈائیورسٹی ایکٹ دوہزارپندرہ“ کی ذیل میں منظور کئے گئے اور یہ جانوروں کی غیر قانونی افزائش نسل پر بھی بھاری جرمانے اور ایسے مراکز کو بند کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت نے بلوچستان (وائلڈ لائف پروٹیکشن‘ پریزرویشن‘ کنزرویشن اینڈ مینجمنٹ) ایکٹ دوہزارچودہ نافذ کر رکھا ہے یہ قانون جنگلی حیات کی ایک جامع فہرست فراہم کرتا ہے جن کا تحفظ ضروری ہے۔ ان جانوروں میں بڑی بلیاں‘ رینگنے والے جانور جیسے دلدل مگرمچھ‘ سانپ بچھو وغیرہ شامل ہیں جن کا شکار نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اُن کی تجارت (خریدوفروخت) کی جا سکتی ہے اور ایسے جانوروں کو بطور پالتو بھی نہیں رکھا جا سکتا۔ بلوچستان حکومت کسی بھی جنگلی جانور کو بطور پالتو رکھنے کے اجازت نامے (لائسنس) جاری نہیں کرتی۔ پاکستان میں جانوروں کے حقوق سے متعلق قوانین و قواعد تو موجود ہیں جنہیں مزید سخت اور جامع بنانے کی ضرورت ہے۔اس کے ساتھ ساتھ جو قوانین موجود ہیں ان کے مطابق ایسے جانوروں کی فہرست پر نظر ثانی کی جائے جنہیں بطور ’پالتو‘ رکھا جا سکتا ہے۔