گیلپ سروے رپورٹ کے مطابق میں 74 فیصد پاکستانیوں نے ملک میں اپنے مستقبل کو محفوظ قرار دیا ہے۔گیلپ پاکستان اور ورلڈوائیڈانڈیپینڈینٹ نیٹ ورک آف مارکیٹ ریسرچ کے سروے کے مطابق دنیا کے 24 ممالک کے 19 ہزار سے زائد افراد سے انٹرویو لیاگیا۔فن لینڈ، ترکی، برطانیہ، جرمنی، جاپان،فرانس اوراٹلی کے شہریوں کے مقابلے مین پاکستانی اپنے مستقبل کے حوالے سے زیادہ پراُمید نکلے۔پاکستان میں 500 افراد اس سروے کا حصہ بنے۔پاکستان میں یہ سروے گذشتہ سال 5 سے 8اپریل کے درمیان کیا گیا دنیا کے 24 ممالک میں مستقبل کو محفوظ سمجھنے والوں کی مجموعی اوسط 42 فیصد رہی 24 فیصد پاکستانیوں نے اپنے مستقبل کو غیر محفوظ قرار دیا۔41 فیصدپاکستانی کورونا کے خلاف حکومتی کارکردگی سے مطمئن نظر آئے‘61فیصد تاجروں نے ملک میں کاروباری حالات کو سازگار اور 39فیصد نے ناسازگار قرار دیا سروے کے مطابق فن لینڈ کے59 فیصد، ترکی 47‘ برطانیہ41‘جرمنی 42‘جاپان 37‘ فرانس 30اوراٹلی کے صرف 29 فیصد نے ملک میں اپنے مستقبل کو محفوظ قرار دیا۔ لبنان کے 78 فیصد اٹلی میں 68، فرانس میں 67 اورجاپان کے 57 فیصدشہری اپنے مستقبل کے حوالے سے پراُمید نکلے۔ گیلپ سروے کی اس رپورٹ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا۔ جاپان، جرمنی، فرانس اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی بعض لوگ اپنے مستقبل کے حوالے سے شکوک و شبہات میں مبتلا نکلے۔ حالانکہ ہمارے لوگ جانیں ہتھیلی پر رکھ کر چوری چھپے ان ممالک میں گھسنے کی کوشش کرتے ہیں اور کئی لوگ منزل تک پہنچنے سے پہلے انتہائی نامساعد حالات کی وجہ سے ہلاکت سے دوچار ہوجاتے ہیں۔جیسا کہ اوپر ذکر کیاگیا ہے کہ گیلپ سروے پچھلے سال اپریل میں کیاگیا تھا۔ اس دوران پٹرولیم مصنوعات،بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہواہے جس کی وجہ سے ضرورت کی ہرچیز کی قیمت میں تین گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی گراوٹ بدستور جاری ہے۔ گزشتہ سال اپریل کے مقابلے میں ڈالر 165روپے سے چھلانگیں لگاتا ہوا 295روپے تک پہنچ گیا ہے درآمدات کے بل بھی اسی حساب سے بڑھ گئے۔ آج ملک میں خوردنی تیل کی قیمت 180روپے لیٹر سے بڑھ کر 625روپے لیٹر ہوگئی ہے۔ آٹے کے بیس کلو گرام تھیلے کی قیمت گیارہ سو سے بڑھ کر دو ہزار آٹھ سو روپے ہوگئی ہے۔ آج سوشل میڈیا کی بدولت عوام اب بہت زیادہ باشعور ہوچکے ہیں۔اپنے ہاتھ میں موبائل فون کے ذریعے وہ لمحے لمحے کی صورتحال سے باخبر ہیں۔گزشتہ ایک سال کے اندر تقریبا ًآٹھ لاکھ پاکستانی قانونی اور غیر قانونی طریقے سے ملک سے باہر جاچکے ہیں جو اس حقیقت کا مظہر ہے کہ لوگ اب ملک میں اپنے مستقبل کے حوالے سے زیادہ پراُمید نہیں ہیں۔پیشہ ور، قابل اور باصلاحیت لوگ ملک سے باہر جارہے ہیں۔جو ملک کے لئے سب سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ملک کے اندر باصلاحیت اور قابل لوگوں کو ان کا جائز مقام دیا جائے تو وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ملک کو دوبارہ ترقی کی راہ پر ڈال سکتے ہیں۔ جس کے لئے حکومتی سطح پر ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔اس سروے کے دوران اگرچہ پاکستان کے حالات کا حوصلہ افزاء نقشہ سامنے آیاہے تاہم مہنگائی کے بڑھتے ہوئے طوفان کی صورت میں جن مشکلات کاسامنا عام شہریوں کو ہے اس کو دیکھتے ہوئے حکومت کی طرف سے جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں ان میں مزید توسیع کی ضرورت محسوس کی جار ہی ہے۔ رمضان المبارک میں غریب شہریوں کومفت آٹا فراہم کرنے کا جو پروگرام بنایا گیا ہے اس پر اگر پوری طرح عمل درآمد ہو تو یہ بھی ایک قدم ثابت ہوسکتا ہے۔ بلکہ ممکن ہوتو رمضان المبارک کے بعد بھی ایسے پروگرامو ں کاسلسلہ جاری رکھا جائے جن کے ذریعے مہنگائی سے متاثرہ آبادی کو ریلیف ملے۔یہ ایک طرف وقت کی ضرورت ہے تو دوسری طرف حکومت کی ذمہ داری بھی۔