کچھ سمجھ میں نہیں آرہاہے کہ آخر ہم کس سمت جارہے ہیں اندرونی طورپر معاشی مسائل میں خطرناک حد تک اضافہ ہوچکاہے جبکہ اب تو امن وامان کی صورت حال بھی تیزی سے بگڑتی جارہی ہے بیرونی محاذ سے بھی کچھ اچھی خبریں نہیں آرہیں افغانستان پر کی جانے والی ساری سرمایہ کاری غارت ہوتی دکھائی دے رہی ہے خیال تھاکہ بھارتی ہمنوا افغان حکومت کے خاتمہ سے ہماری اس طرف والی سرحد محفوظ ہوجائے گی جس کے بعد وسط ایشیا تک تجارت کاخواب بھی شرمندہ تعبیر ہو پائے گا مگر جس تیزی کے ساتھ افغانستان کے ساتھ بد اعتماد ی میں اضافہ ہورہاہے اس سے یقینا خارجہ پالیسی پر سوالیہ نشان لگ چکاہے پاک ایرا ن گیس پائپ لائن تاحال معرض التواء میں پڑی ہوئی ہے اسی طرح روس سے سستے تیل اور گندم کی خریداری کے حوالہ سے بھی عملی پیشرفت ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ان حالات میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کی پوری توجہ اس امر پر مرکوز ہے کہ الیکشن ہونگے یا نہیں ہونگے حکومت مصر ہے کہ نہ صرف قبل ازوقت الیکشن نہیں ہونگے بلکہ حالات ایسے بنتے جارہے ہیں کہ پارلیمنٹ کی مدت میں ایک سال کی توسیع پرغور کیاجاسکتاہے حکومت کے نزدیک الیکشن چاہے قبل ازوقت ہوں یا بعدازوقت،مسائل حل نہیں کرسکیں گے چنانچہ اب تو الیکشن کمیشن کو اکتوبر کے عام انتخابات کے لئے درکار 65ارب روپے دینے سے بھی انکار کیاجارہاہے گویا نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری جب حکومت پیسے اور سکیورٹی ہی نہیں دے گی تو الیکشن کمیشن کیاتیر مارلے گا حکومت کی تمام ترتوجہ اس جانب مرکوز ہے کہ کس طرح موجودہ قومی اسمبلی یا تو مدت پوری کرے یا پھر اسے ایک سال توسیع مل سکے دوسری طر ف حزب اختلاف کی پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی جماعتیں قوم کو مسلسل یہ باور کرانے میں مصروف ہیں کہ صرف اورصرف قبل ازوقت الیکشن ہی ملک کو موجودہ بدترین صور تحال سے نجات دلا سکتے ہیں بدقسمتی سے نہ تو حکومت کے پاس کوئی ایسا واضح پروگرام ہے کہ اگر قومی اسمبلی مدت پوری کرپاتی ہے تو اس پانچ ماہ کی مدت میں معاشی صورت کیونکر بہتر بنائی جاسکے گی یا پھر اگر قومی اسمبلی کو ایک سال کی توسیع دی جاتی ہے تو اس ایک سال میں حکومت کے پاس مسائل کے حل کے لئے کون سافارمولہ ہے‘بہتر ہوتا کہ حکومت محض اپوزیشن پر الزام تراشی کے بجائے اپنے معاشی پروگرام پر قوم کو اعتماد میں لیتی کچھ یہی حال اپوزیشن کابھی ہے اس کے پاس بھی ابھی تک مستقبل کے لئے کوئی معاشی پلان موجود نہیں ہے محض یہ کہناکہ قبل ازوقت الیکشن مسائل کے حل کے لئے ناگزیر ہے کافی نہیں اپوزیشن کو مستقبل کے لئے کوئی جامع منصوبہ بندی کرکے اس پر قوم کو اعتمادمیں لیناہوگا گویا سیاسی قوتوں کو بھی پتہ ہے کہ قوم کو محض سیاسی شعبدہ بازی سے مشغول رکھا جاسکتاہے اس قسم کے رجحان پر صرف افسوس ہی کیاجاسکتاہے جن لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قوم کی سیاسی تربیت کرتے ہوئے مستقبل کے سیاسی فیصلوں کے لئے نوجوان نسل کو تیار کرے وہ لوگ محض ایک دوسر ے کے خلاف دشنام طرازی میں مصروف ہیں فریقین کی یہ لفظی بمبار ی نوجوان نسل کو جس تیزی کے ساتھ پارلیمانی نظام سے متنفر کررہی ہے اس حوالہ سے کوئی بھی سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کررہالوگ یہ سوچنے لگے ہیں کہ یہ کونسا پارلیمانی نظام ہے کہ جس میں کسی کو پتہ ہی نہیں کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد الیکشن کی تاریخ کس نے دینی ہے اور اس معاملہ میں بھی فیصلہ عدالتوں کو کرناپڑتاہے معاملات اس نہج تک پہنچانے میں بنیادی کردار سیاسی قوتوں کے بے لچک رویوں کاہی ہے وطن عزیز میں سیاسی مخالفت کوسیاسی دشمنی میں بدل دیاگیاہے سیاسی مخالفت میں بات چیت کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں بدترین حالات میں بھی مخالف سیاسی قوتیں ایک میز پر بیٹھ کر بند گلی سے نکلنے کی کوشش کرتی ہیں‘قوم کو غیریقینی کی صورت حال سے نکالنے کی سنجیدہ کوشش کی جاتی ہے لیکن جب نہ نظر آنے والی لکیر عبور کرکے سیاسی مخالفت کو سیاسی دشمنی میں بد ل دیاجاتاہے تو پھر ہر قسم کے دروازے بند اور رابطے منقطع ہوجاتے ہیں جس کے باعث پھر سیاسی پیچیدگیوں میں اضافہ ہونے لگتاہے معاملات سیاسی و پارلیمانی اداروں کے بجائے کہیں اور حل کرنے کی روش پختہ تر ہوتی جاتی ہے اور صورتحال کافائدہ بھی پھر کوئی اور اٹھاتاہے باہمی بداعتماد ی کایہ عالم ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اس امر کی ضمانت نہیں دے سکتی کہ اگر الیکشن ہوجاتے ہیں (چاہے قبل ازوقت ہوں یا وقت پر ہوں)اس کے نتائج متنازعہ نہیں ہوں گے اور مخالف فریق کی جیت کو کھلے دل کے ساتھ تسلیم کرتے ہوئے رولز آف گیم کے تحت اپنی باری کاانتظار کیاجائے گا ویسے بھی جو سیاسی قوتیں الیکشن کی تاریخ پر متفق نہیں ہوپارہیں اور عام انتخابات کامعاملہ طے کرنے کے لئے مل بیٹھنے پر آمادہ نہیں ہورہیں وہ عام انتخابات میں مخالف فریق کی جیت اور پھر اس کی پانچ سالہ حکومت کو کیسے برداشت کرپائیں گی اور اگر بے لچک رویوں کایہی حال رہا تو پھریہ امرطے ہے کہ الیکشن سے مسائل میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوگا ہماری سیاسی قوتیں آخر ملک اور معاملات کو کہاں لے جاناچاہتی ہیں ڈرناچاہئے اس وقت سے جب عام شہری کااعتماد سیاسی نظام پر ہی سے ختم ہوجائے گا پھر اس ملک میں پارلیمانی جمہوریت کی ڈگڈگی کوئی بھی نہیں بجا سکے گا پھر اگر کوئی اور آتاہے یا پھر صدارتی نظام لایاجاتاہے تو قوم اسی طرح خیر مقدم کرے گی جس طرح طویل سیاسی عدم استحکام اور بے لچک سیاسی رویوں کی وجہ سے پیدا شدہ صورت حال کے بعد 1958ء میں مارشل لاء کے نفاذ کے وقت کیا گیاتھا تب قوم نے مارشل لاء کو انقلاب کانام دیا تھا گلی کوچوں میں خوشی کے شادیانے بجائے گئے تھے بے لچک رویوں کی وجہ سے ہی پھر 1971میں پورا ملک ہی دولخت کردیا گیا تب یہ ضد تھی کہ کسی بھی صورت قومی اسمبلی کااجلاس نہیں ہونے دینانہ ہی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرناہے ملک دولخت کردیاگیا مگر متحدہ پاکستان کی قومی اسمبلی کااجلاس نہیں بلایا گیا اب بھی الیکشن کے معاملہ پر جو ڈیڈ لاک پیدا کیاجاچکاہے اس کے خاتمہ کی تمام تر ذمہ داری سیاسی قوتوں پر ہی عائد ہوتی ہے اورجتنا جلد ہوسکے اس ذمہ داری سے نبردآزما ہوناچاہئے بصورت دیگر سب کے سب خالی ہاتھ ہی رہ جائیں گے۔