خواتین کا سال میں ایک بار عالمی دن منانے پر ہمارے ایک دوست کو اعتراض ہے ان کا موقف ہے کہ سال کے باقی ماندہ 364 دن بھی خواتین کے دن ہوتے ہیں‘ بے چارے مردوں کا کوئی دن نہیں ہوتا‘مردوں کے تین ہی دن ہوتے ہیں‘ایک پیدائش کا دن ہے جب ماں باپ اور دوسرے رشتے دار بیٹے کی پیدائش پر خوشیاں مناتے ہیں‘دوسری خوشی کا دن ان کی شادی کا ہوتا ہے‘جب مرد کے چہرے پر ”آخری بار“ سچی مسکراہٹ آتی ہے اور مرد کا تیسرا دن اس کی موت کا دن ہوتا ہے جب لوگ اس کی جدائی پر سوگ منا رہے ہوتے ہیں۔عورت کا عالمی دن منانے کی تجویز کس نے دی ہوگی‘ اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا تاہم یہ بات طے ہے کہ کوئی مرد ایسی حماقت کا تصور بھی نہیں کرسکتا‘یہ بھی کسی عورت کی کارستانی ہوگی‘دنیا کے دوسرے ملکوں میں عالمی یوم نسواں پر کوئی خاص ہلہ گلہ نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں ویلن ٹائن ڈے اور یوم خواتین کو خصوصی اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔گذشتہ چند برسوں سے بڑے شہروں کی ترقی یافتہ خواتین اس دن کو یوم آزادی کے طور پر منا رہی ہیں۔ان کا اپناخیال ہے کہ پاکستان کی عورت آج بھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔جس سے نجات کے لئے وہ جدو جہد کر رہی ہیں‘سولہ سنگھار صرف عورت کے جسم کے لئے جائز قرار دیا گیا ہے۔مرد بیچارہ نہ میک اپ کرتا ہے نہ ہی اسے بناؤ سنگھار کی فرصت ہے۔اسلام آباد، پنڈی، فیصل آباد، حیدر آباد، لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہروں کی خواتین کا خیال ہے کہ خیبر پختونخوا کی خواتین سب سے مظلوم، محکوم، مجبور اور قابل رحم ہیں، مردوں کے نقارہ خانے میں ان بیچاریوں کی آواز کوئی نہیں سنتاوہ اپنے پیدائشی حقوق سے بھی نا آشنا ہیں۔لیکن اس بار خیبر پختونخوا کی خواتین نے یوم نسواں جس انداز سے منایا ہے انہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ سب سے زیادہ باشعور ہیں وہ صرف جسم، اپنی ذات اور اپنے خاندان کے بارے میں نہیں سوچتیں بلکہ انہیں اپنی قوم، اپنی آنے والی نسلوں اور مادر وطن کی بھی فکر ہے۔انہوں نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ وہ بنی نوع انسان کو درپیش خطرات سے بھی بخوبی آگاہ ہیں اور انہیں موسمیاتی تبدیلی سے انسانی زندگی کو درپیش خطرات کا بھی احساس ہے۔ اس بار پشاور کی خواتین نے عالمی یوم نسواں کو یوم شجرکاری کے طور پر منایا۔ خواتین نے بوٹانیکل گارڈن سمیت مختلف مقامات پر پھول اور پودے لگائے۔ان پودوں کو پانی دیا اور دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ماحولیاتی تبدیلی سے انسانوں اور دیگر جانداروں کی بقاء کو جو سنگین خطرات لا حق ہیں ان کے تدارک کے لئے خواتین سمیت معاشرے کے ہر طبقے کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔اس بار ہماری خواتین نے جو شاندار اور قابل تقلید مثال قائم کی ہے اس پر پوری قوم کو فخر ہے۔خواتین نے معاشرے کو درپیش خطرات کے بارے میں جو پیغام دیا ہے۔اس پر ارباب اختیار اور معاشرے کے سنجیدہ طبقوں کو ضرور غور کرنا چاہئے‘اس سلسلے میں حکومت کو بھی چاہئے کہ خواتین کوان کے حقوق دینے میں کشادہ دلی کا مظاہرہ کرے اور ان کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے اقدامات کرے۔