وفاقی حکومت نے کفایت شعاری مہم کے دوران پاکستان کی اپنی کمپنیوں کا تیارکردہ بوتلوں میں بند پانی استعمال کرنے کا اعلان کیا جبکہ خیبرپختونخوا حکومت نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے تمام سرکاری دفاتر اور سرکاری اجلاسوں کے دوران ’بوتلوں میں بند پانی (جسے عرف عام میں ”منرل واٹر“ کہا جاتا ہے) کے استعمال پر ہی پابندی عائد کر دی ہے۔ یہ فیصلہ اور اقدام ’حکومتی کفایت شعاری مہم‘ کا حصہ ہے جس سے متعلق صوبائی محکمہئ خزانہ نے محکمانہ ہدایت نامہ (سرکلر) جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرکاری دفاتر کے اخراجات میں ’منرل واٹر‘ خریداری کی مد میں کی گئی ادائیگیوں کی منظوری نہیں دی جائے گی“ بوتلوں میں بند پانی کے بغیر آج کی دنیا کا تصور مشکل ہے‘ یہ ایک بے مثال سہولت بھی ہے جس کے ذریعے دن بھر جسمانی ضرورت کے مطابق پانی پینے یعنی ’ہائیڈریٹ رہنے‘ ممکن ہے اور اب چلتے پھرتے پانی اُٹھتے بیٹھتے پانی پینا گویا ضرورت سے زیادہ فیشن بن چکا ہے‘اسلامی شریعت میں پانی پینے کے آداب تفصیلاً ذکر ہوئے ہیں۔‘بوتلوں میں بند پانی کے استعمال کا آغاز ’سلطنت ِروم‘ میں ہوا‘ جہاں منبع سے پانی کی ترسیل کرنا تھی۔ اِس سے قبل پانی کے راستے (چینل) جنہیں کٹھہ بھی کہا جاتا ہے پانی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لیجایا جاتا تھا تاہم پانی کا ذائقہ اور رنگ خراب ہونے سے بچانے کے لئے بوتل نما مٹی کے برتنوں کا استعمال کیا گیا۔ پانی کے چھوٹے اور بڑے برتن ایجاد ہوئے جو بعد میں بوتل بند پانی میں تبدیل ہوگئے بوتل بند پانی سترہویں صدی کی ایجاد ہے برطانیہ میں ”ہولی ویل بوٹلنگ پلانٹ“ سے بوتل بند پانی کی فروخت 1622ء میں شروع ہوئی جس کے بعد یہ رواج جلد ہی یورپ کے دیگر حصوں میں پھیل گیا۔ ابتداء میں معدنی چشموں نے حاصل کردہ پانی کو بنا کسی تطہیری عمل سے گزارے بوتلوں میں ڈال کر فروخت کیا جاتا تھا لیکن آج بوتلوں میں بند پانی زیرزمین ذخیرے سے حاصل ہونے کے بعد تطہیر کے کیمیائی اور تیز رفتار عمل سے گزرتا ہے جس میں کیمیائی مادوں کا استعمال ہوتا ہے اور پانی میں نمکیات و معدنیات بھی مصنوعی طریقے سے شامل کئے جاتے ہیں۔ بوتلوں میں بندپانی بطور دوا (شفا یابی اور علاج کے غرض سے) تجویز کیا جاتا تھا۔ سال 1900ء کی دہائی تک یورپ کے دوا فروخت کرنے والی دکانوں (فارمیسیز) پانی ڈاکٹروں کے نسخے پر مریضوں کو دیا جاتا تھا کیونکہ طبی نکتہئ نظر سے انسانوں کو لاحق ”80 فیصد“ بیماریوں کا تعلق صاف پانی نہ پینے سے ہے‘ پاکستان میں پینے کے صاف پانی سے جڑے مسائل 2 طرح کے ہیں۔ سب سے پہلے تو بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے حسب یومیہ ضرورت پانی دستیاب نہیں اور دوسرا دستیاب پانی کا معیار تسلی بخش نہیں ہے‘ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کی قریب 40 فیصد آبادی کو پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل ہے جبکہ پینے کا صاف پانی حاصل کرنے والے خوش نصیبوں میں ہر سال قریب ایک فیصد کے تناسب سے کمی بھی ہو رہی ہے اور ہر سال ہی پچاس ہزار سے زیادہ بچے صرف غذائی قلت‘ پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی اور صفائی ستھرائی نہ ہونے کی وجہ سے ہلاک ہو رہے ہیں۔پانی کو بوتلوں میں بند کرنے کا سفر مٹی کے بوتل نما برتنوں (صراحی) سے شیشے کی بوتلوں تک پہنچا اور 1947ء سے تجارتی (یعنی بڑے) پیمانے پر پانی فروخت کرنے کے لئے پلاسٹک سے بنی ہوئی بوتلیں استعمال ہو رہی ہیں اور طبی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ کسی بھی قسم کی پلاسٹک کھانے پینے کے لئے استعمال کرنے کے الگ الگ نقصانات ہیں جبکہ انسانی صحت کے لئے سب سے زیادہ محفوظ برتن مٹی یا شیشے کے بنے ہوئے ہیں جو کیمیائی طور پر کھانے پینے کی اشیا کے ساتھ ردعمل (ری ایکشن) نہیں کرتے۔ اِس لئے مٹی کے برتن استعمال کرنے چاہیئں۔بوتلوں میں بند پانی اٹھارہوں صدی عیسوی تک یورپ میں عام استعمال ہونے کے بعد برآمد ہونے لگا۔ آج (سال 2023ء) کے دوران دنیا کا سب سے مہنگا ’منرل واٹر‘ جاپان کا ’فلیکو جیولری واٹر‘ ہے جس کی فی لیٹر قیمت 1390 ڈالر (3 لاکھ 40 ہزار پاکستانی روپے) ہے۔ دوسرے نمبر پر سب سے مہنگا منرل واٹر جرمنی کا نواس (1180 ڈالر فی لیٹر 3 لاکھ 26 ہزار پاکستانی روپے فی لیٹر)‘ تیسرا مہنگا ترین ’منرل واٹر‘ امریکہ کا ’بلنگ ایچ ٹو او‘ (219 ڈالر فی لیٹر 62 ہزار پاکستانی روپے فی لیٹر) ہے ’بلنگ‘ کا ایک خصوصی پانی ’2 لاکھ ڈالر فی لیٹر‘ بھی فروخت کیا جاتا ہے جبکہ کئی واٹر کمپنیاں ایسی بھی ہیں جن کا پانی مارکیٹ میں فروخت ہی نہیں ہوتا اور وہ گنتی کے مستقل گاہگوں (سرمایہ داروں) کو ہاتھوں ہاتھ فروخت کر دیا جاتا ہے۔