موسمیاتی تبدیلیاں: زرعی عدم تحفظ

رواں مالی سال کے دوران پاکستان میں گندم کی پیداوار کم ہوگی جس کی وجہ موسمیاتی تبدیلیوں کو قرار دیا گیا ہے۔ اندازہ ہے کہ رواں سال (دوہزارتئیس) گندم کی پیداوار ایک لاکھ ٹن رہے گی کیونکہ محکمہ موسمیات نے مارچ کے تیسرے ہفتے سے شروع ہونے والے دو ہفتوں تک شدید بارشوں کی پیش گوئی کی ہے اور وہ موسم جب گندم کی کھڑی فصل کو دھوپ کی ضرورت ہوتی ہے اگر بارش ہوئی تو اِس سے بڑے رقبے پر موجود فصل خراب ہو جائے گی۔ سب سے زیادہ گندم کی پیداوار پنجاب میں کم ہوگی جس کا ایک محرک یہ بھی ہے کہ کاشتکاروں نے گندم کے متبادل دیگر فصلیں کاشت کیں جبکہ گندم کا ایسا بیج بھی کاشت نہیں کیا گیا جو موسمیاتی اثرات کا مقابلہ کر سکے۔ اِس سلسلے میں زرعی شعبے سے متعلق تحقیق کرنے والے حکومتی اداروں اور جامعات کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ روس اور یو کرین کہ جہاں سارا سال سردی رہتی ہے اور برفباری کا تسلسل بھی رہتا ہے لیکن وہاں گندم موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف مدافعت رکھنے والا ایسا بیج تیار کیا گیا ہے جس سے حاصل ہونے والی مثالی پیداوار برآمد کی جاتی ہے۔
پاکستان میں زرعی شعبہ خاطرخواہ حکومتی توجہ سے محروم ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر سال زرعی اجناس کی کمی ہو رہی ہے۔ ماضی میں جو فصل سبزی اور پھل ملکی و مقامی ضرورت سے زیادہ ہونے کی وجہ سے برآمد کئے جاتے تھے آج وہی درآمد کئے جا رہے ہیں۔ غذائی عدم تحفظ کی یہ صورتحال خوردنی اجناس کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بھی ہے۔ کاشت کے اعدادوشمار اور موسمیاتی پیش گوئیوں کے مطابق رواں مالی سال 2022-23ء کے دوران پنجاب میں گندم کی پیداوار کو بڑا دھچکا لگے گا جس کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کے  ساتھ زیادہ منافع کے لئے گندم کے علاوہ دیگر فصلوں کی بوائی کا رجحان بھی پایا جاتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ رواں برس کے لئے گندم کی پیداوار کا ہدف 28.4 ملین ٹن رکھا گیا تھا جبکہ حاصل ہونے والی پیداوار تقریباً 26.7 ملین ٹن رہنے کا امکان ہے۔اس کے علاوہ آئندہ مالی سال میں بھی گندم کی شدید قلت رہے گی اور حکومت کو بنیادی خوراک کی ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے گندم کی درآمد پر انحصار کرنا پڑے گا۔ گندم کی درآمد میں ایک ایسے وقت میں اضافہ ہوگا جب ملک کے زرمبادلہ (ڈالر) کے ذخائر تاریخ کی کم ترین سطح تک جا پہنچے ہیں اور ملک کو بدترین لیکویڈیٹی بحران کا سامنا ہے۔ حکومت کے پاس اِس کے سوا چارہ نہیں رہا کہ آئندہ مالی سال کے دوران تین لاکھ ٹن گندم درآمد کی جائے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں گندم صرف ملکی ضروریات پورا کرنے ہی کے لئے استعمال نہیں کی جاتی بلکہ اِس سے افغانستان کی ضروریات بھی پوری کی جاتی ہیں اور اگر جملہ ضرورت کو دیکھا جائے تو پانچ ملین ٹن سے زیادہ گندم درآمد کرنے کی ضرورت پڑے گی۔ سرکاری طور پر تاحال گندم کی پیداوار کے ہدف اور گندم کے متبادل دیگر اجناس کی کاشت کی وجوہات بارے تحقیق نہیں کی گئی اور نہ ہی تاحال گندم کی پیداوار کے ہدف پر نظر ثانی کی گئی ہے تاہم گندم کی پیداوار ستائیس ملین ٹن کے لگ بھگ رہنے کی توقع ہے جبکہ اصل اعداد و شمار کٹائی کے بعد ہی حاصل ہو سکیں گے۔ گندم کی فصل کا متبادل مکئی اور تیل دار اجناس ہیں‘ جن کی قیمتیں گندم کے مقابلے زیادہ بہتر ہیں اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال کی طرح اِس سال بھی گندم کی بجائے مکئی اور تیلدار اجناس کاشت کرنے کا رجحان برقرار رہے گا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق حکومت نے رواں مالی سال میں گندم کی حاصل ہونے فصل اور اِس کی بوائی کا جو ہدف  رکھا تھا اُس کے مطابق فصل کاشت نہیں ہوئی اور اِس بات کی بھی توقع نہیں کہ کاشت ہونے والی فصل مطلوبہ مقدار میں گندم حاصل ہو سکے گی۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پنجاب میں گندم کے مقابلے دیگر فصلوں کا متبادل اس لئے کاشت کیا گیا کیونکہ کاشتکاروں نے بہتر منافع حاصل کرنے کے پیش نظر تیل کے بیجوں کی طرف رخ کیا تھا۔ اِسی طرح سندھ نے گندم کی بوائی کا ہدف تو حاصل کر لیا لیکن وہاں گندم کی فصل پر موسمیاتی اثرات کا خطرہ ہے جبکہ سیلاب سے متاثرہ سندھ کے علاقوں میں ہنوز زرعی معیشت و معاشرت بحال نہیں ہوسکی ہے۔ ابتدائی تخمینوں کے مطابق سندھ نے اپنے زیر کاشت رقبے کا پچیس فیصد حصہ حاصل کر لیا ہے جہاں فی ایکڑ پیداوار چالیس ٹن ہے۔ خیبرپختونخوا میں 1.933 ملین ایکڑ پر گندم کی بوائی کی گئی جو اصل ہدف کا 87فیصد ہے اور اِسی تناسب سے پندرہ فیصد کم گندم حاصل ہونے کی توقع ہے۔ بلوچستان نے گندم کی بوائی کا ہدف ’77 فیصد‘ حاصل کیا۔ گندم کی پیداوار کا متوقع ہدف حاصل نہ ہونے خطرے کی بات ہے۔ دوسری طرف محکمہ موسمیات نے وزارت نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ کو متنبہ کیا ہے کہ اگلے تین مہینوں (مارچ اپریل اور مئی دوہزارتئیس) کے دوران گرمی کی لہر (ہیٹ ویو) آئے گی جبکہ ملک کے مختلف حصوں میں بارشیں بھی دیکھنے میں آئیں گی۔ ذہن نشین رہے کہ ہیٹ ویو کی وجہ سے گزشتہ سال (دوہزاربائیس) کے دوران بھی گندم کی پیداوار دس سے بارہ فیصد کم حاصل ہوئی تھی جبکہ اِس سال موسمیاتی اثرات کی وجہ سے پندرہ فیصد تک کم گندم حاصل ہونے کی توقع ہے۔ پاکستان ہر سال افغانستان کو دس لاکھ ٹن گندم فراہم کرتا ہے اور اگر گندم کی پیداوار کم رہی تو افغانستان کو فراہم کی جانے والی گندم بھی کم ہوگی جہاں پہلے ہی غذائی قلت اور بیماریوں کی وجہ سے انسانی بحران ہر دن شدت اختیار کر رہا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان کے لئے گندم ضرورت سالانہ 30.79 ملین میٹرک ٹن کو پورا کرنے کے لئے 2.37 ملین میٹرک ٹن کی کمی ہے۔