انفارمیشن ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز ترقی نے پوری دنیا کو ایک قصبے میں تبدیل کردیا ہے۔ گذشتہ پچاس سالوں کے دوران اطلاعات کی رسائی کے نظام میں ناقابل یقین تبدیلی آئی ہے۔ڈاک کے ذریعے خط بھیجنے کا دور بھی بہت یادگار تھا۔ محکمہ ڈاک کی آمد سے پہلے قاصد کے ذریعے پیغام رسانی ہوتی تھی۔ مرزا غالب بھی قاصد کی خدمات کے معترف تھے۔ کہتے ہیں کہ قاصد کے آتے آتے خط ایک اور لکھ رکھوں، میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں۔اطلاعات کی فوری رسائی کے لئے ٹیلی گرام کا سہارا لیاجاتا تھا۔ پھر ٹیلی فون کا زمانہ آگیا۔ تاہم شہر یا ملک سے باہر فون پر اپنے پیاروں سے بات کرنے کے لئے ٹرنک کال کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ ملکی و بین الاقوامی حالات سے آگاہی اور تفریح کے لئے ریڈیو سب سے موثر ذریعہ تھا۔1965کا واقعہ ہے کہ چترال میں ہمارے گاؤں میں پہلی بار ریڈیو سے لوگ متعارف ہوئے۔ میرے والد نے پانچ سو روپے میں وہ ریڈیو خرید لیا۔جس کے لئے چار بیل فروخت کرنے پڑے، ایک بیل کی قیمت اس وقت 120روپے ہوا کرتی تھی۔ شام کو کام کاج سے فارغ ہوکر گاؤں کے سارے بڑے بوڑھے ریڈیوکے گرد جمع ہوتے تھے۔ محمد رفیع،طلعت محمود، نورجہاں، زبیدہ خانم، مسعود رانا اور شمشاد بیگم کے گانے سنتے تھے۔ریڈیو پاکستان پشاور نے علاقائی زبانوں میں پروگرام نشر کرنا شروع کردیا۔پشتو، ہندکو، کہوار اور گوجری زبان میں خبریں اور پروگرام نشر ہونے لگے تو دیہی علاقوں میں بسنے والوں کو بھی اپنے ملک کے حالات و واقعات اور خبروں سے آگاہی ملنے لگی۔ پشاورکاریڈیو سٹیشن 1935میں قائم ہوا تھا۔ یہ پاکستان کا سب سے پرانا براڈ کاسٹنگ ہاؤس ہے۔علاقائی ادب، ثقافت، زبان اور اقدار کے فروغ میں ریڈیو پاکستان پشاور کا کلیدی کردار رہا ہے۔ ریڈیو کے پلیٹ فارم سے کہوارزبان و ادب اور ثقافت و تہذیب کے فروغ میں کردار اداکرنے والوں کی خدمات کے اعتراف میں سٹیشن ڈائریکٹر سیدہ عفت جبارکی ہدایت پر پشاور سٹیشن میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔اس موقع پر کہوار زبان کی ترویج و ترقی کے لئے گرانقدر کام کرنے پر پروفیسر اسرار الدین، ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی، گل مراد حسرت، شیر ولی خان اسیر، ولی زار خان ولی، گل نواز خاکی، محمد حسن، میرزا علی جان،اقبال الدین سحر، اقبال حیات، علاؤالدین صابر، معراج الدین، قاضی عنایت جلیل اور دیگر شخصیات کو خراج تحسین پیش کیاگیا۔اس موقع پر پروفیسر اسماعیل ولی اخگر، محمد شریف شکیب، سراج الدین اور قاضی عنایت جلیل کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ گرین مارکیٹنگ کے اشتراک سے صاحب الاحمد، خواجہ سعید احمد، مہربان الہی حنفی، فضل نعیم، ابراہیم شاہ طائر، سفیر احمد، خیر محمد سہیل، ڈاکٹر عبدالمالک، مولانا محمد اقبال اور محبوب الرحمان کو اعزازی شیلڈز دی گئیں۔ عبدالمجید بلوچ،حبیب النبی اور سردار اعظم خان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں بھی ایوارڈ دیئے گئے۔ تقریب کے تمام شرکا کو ریڈیو پاکستان پشاور کی 88ویں سالگرہ کی مناسبت سے سرٹیفیکیٹ بھی دیئے گئے۔اعتراف فن کی یہ روایت فن و ثقافت کے فروغ کی ایک قابل قدر کوشش ہے۔ مادیت پرستی اور نفسا نفسی کے اس دور میں زبان و ادب، ثقافتی ورثے، اقدار اور روایات کو برقرار رکھنے کے لئے رضاکارانہ خدمات پیش کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ناگزیر ہے۔ زبان و ثقافت کسی قوم کی پہچان کا ذریعہ ہیں۔ قوموں کی صف میں اپنی انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے آگے بڑھنے کے لئے اپنی تہذیب و ثقافت سے جڑے رہنا ضروری ہے۔ جب شجر کے ساتھ خود کو پیوستہ رکھیں گے تب ہی بہارآنے، کونپلیں پھوٹنے، پھول کھلنے اور پھل لگنے کی امید برقرار رہتی ہے۔