نئے دماغ میں وسعت خلاؤں جیسی ہے 

کمپیوٹروں کو ’مصنوعی ذہانت‘ سے لیس کرنا حقیقت کا ایسا رخ ہے جو کم خطرناک ہے لیکن جب اِسی مصنوعی ذہانت کی صلاحیت سے ہتھیاروں کو لیس کیا جاتا ہے تو یہ صرف خطرناک نہیں بلکہ بہت ہی خطرناک بن جاتے ہیں اور جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ممالک اپنی دفاعی صلاحیت کو ’مصنوعی ذہانت‘ کے بل بوتے پر ناقابل تسخیر بنا رہے ہیں تو درحقیقت انسان خود مسخر ہو رہا ہے! ذہن نشین رہے کہ عربی زبان کے لفظ ’مسخر‘ کا ایک مطلب فاتح بھی ہے۔ کیا عجب کہ انسانوں پر فاتح کمپیوٹر ہو رہے ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ بھارت اور سری لنکا سمیت کم از کم ساٹھ ممالک نے سال دوہزار سترہ سے اب تک ’مصنوعی ذہانت‘ سے متعلق قوانین و قواعد بنائی ہیں جبکہ اِس سلسلے میں بنگلہ دیش نے بھی مسودہئ قانون بنا کر عوامی مشاورت کے لئے پیش کر رکھا ہے چونکہ ’مصنوعی ذہانت‘ نئے عالمی نظام کی تعمیر میں پرانی رکاوٹوں کو تیزی سے ختم کر رہی ہے لہٰذا پاکستان کیلئے ایک قومی مصنوعی ذہانت کی پالیسی ضروری ہے تاکہ اس کے معاشی مستقبل کو محفوظ بنایا جاسکے اور ترقی کی نئی راہوں کے ساتھ قومی دلچسپی کے منصوبوں کی نشاندہی بھی کی جائے اور اگر ایسا کر لیا گیا تو مستقبل بعید نہیں بلکہ مستقبل قریب میں مصنوعی ذہانت سے لیس ہتھیاروں جیسے چیلنجوں سے نمٹنے کی تیاری کی جاسکے گی۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ آج کی دنیا میں معیشت‘ قومی سلامتی اور فوجی طاقت (دفاعی صلاحیت) جیسے تمام بڑے محاذ ٹیکنالوجی اُور ٹیکنالوجیکل ترقی پر منحصر ہیں لہٰذا فیصلہ سازوں کو موجودہ دور اور آنے والے وقتوں میں مصنوعی ذہانت کی اہمیت کا ’بروقت احساس‘ کرنا چاہئے۔ روس‘ چین اور اَمریکہ کے صدور نے مختلف اوقات میں مصنوعی ذہانت کے ممکنہ فوائد کا ذکر کیا ہے اور مغربی دفاعی تجزیہ کار اِس معاملے کے کئی پہلوؤں کو اُجاگر کر رہے ہیں اور عالمی سطح پر ایک ایسے ملک 
کے غلبے کی پیش گوئی کی جا رہی ہے جو مصنوعی ذہانت کی تحقیق میں سب سے آگے ہے۔پاکستان کی ’قومی سلامتی پالیسی 2022ء‘ میں اقتصادی سلامتی کو اس کے قومی سلامتی کے ویژن میں سب سے آگے رکھا گیا ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ معیشت اور قومی سلامتی کے مابین تعلقات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے لئے اہم ترجیح معیشت میں مصنوعی ذہانت کا پھیلاؤ ہونا چاہئے تاکہ اِس کی ترقی کو تیز کیا جاسکے اور دفاعی شعبے سمیت تمام ترجیحی شعبوں میں مصنوعی ذہانت سے چلنے والے آلات کی ترقی اور اِنہیں اپنانے کی حوصلہ افزائی بھی کی جاسکے۔ مصنوعی ذہانت کی قومی اہمیت اور معاشی و دفاعی شعبے پر اِس کے اثرات کے پیش نظر پاکستان کو قومی ترقی کی راہ پر گامزن کرنے اور ’سمارٹ مستقبل‘ کی راہ ہموار کرنے کے لئے قومی مصنوعی ذہانت کی پالیسی تشکیل ازحد ضروری ہے۔ ایک عام مصنوعی ذہانت کی پالیسی متعدد ستونوں پر مبنی ہوتی ہے‘ جن میں سے ’معیشت و دفاع‘ سب سے اہم پہلو ہیں جو بیک وقت معاشرے پر نقصان دہ اور مفید اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔ پرائس واٹر ہاؤس کوپرز (پی ڈبلیو سی) کے ایک مطالعے میں کہا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت میں تیزی سے ترقی کی وجہ سے سال 2030ء تک عالمی شرح نمو (جی ڈی پی) 14فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ اس میں سالانہ عالمی اقتصادی 
ترقی کی شرح کو دوگنا کرنے کی صلاحیت ہے کیونکہ جدید ٹیکنالوجی مختلف شعبوں کو متاثر کررہی ہے اور آمدنی کے نئے ذرائع بھی پیدا کر رہی ہے اور مصنوعی ذہانت ہی کے بل بوتے پر معمول کے کام کاج خودکار طریقے سے ہو رہے ہیں جیسا کہ ’سیلف ڈرائیونگ گاڑیاں‘ متعارف ہو رہی ہیں تو اِس کا ایک پہلو یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کی وجہ سے افرادی قوت کی ضرورت (طلب) کم ہو جائے گی۔ موجودہ افرادی قوت کی مدد کرنا‘ یہ نہ صرف افرادی قوت کو اپنے کام کو مؤثر طریقے سے انجام دینے کے قابل بنائے گا بلکہ انسانی اعلی اقدار میں اضافے کا باعث بننے والی سرگرمیوں میں سرمایہ کاری کرنے کا باعث بھی ہوگا۔ بین الاقوامی سلامتی کی ضروریات اور دفاع میں سٹریٹجک تبدیلیوں کے مستقبل کی حرکیات کے بارے میں‘ مصنوعی ذہانت اب ریاست کا ستون بن چکی ہے۔ گلوبلائزیشن اور ہتھیاروں کے نظام کی ترقی نے مصنوعی ذہانت سے مربوط دفاعی نظام کو عالمی سطح پر فوجی کاروائیوں کے لئے نئے چیلنجوں اور خطرات کا آغاز کیا ہے لہٰذا نئے پیچیدہ سیکورٹی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے‘ ضروری ہے کہ ہماری مجوزہ مصنوعی ذہانت کی پالیسی میں دفاعی شعبے میں مصنوعی ذہانت کو استعمال کرنے کے لئے عملی اقدامات اور نقطہئ ہائے نظر شامل ہونے چاہیئں تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس طرح کی پیش رفت خطرات کا مقابلہ کرنے میں روایتی صلاحیتوں پر ہمارے انحصار کو کم کر سکتی ہے جو اپنی جگہ یکساں طور پر اہم ہیں۔ قومی فیصلہ سازوں کو وقت کے تقاضوں کا احساس کرتے ہوئے پہلے صنعتی اور معلوماتی شعبوں میں ترقی کے شانہ بشانہ آگے بڑھنا چاہئے۔ گرتی ہوئی معاشی صورتحال کو سہارا دینے میں بھی ٹیکنالوجی اور تحقیق کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے کیونکہ عالمی سطح پر یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس کی مصنوعات ہاتھوں ہاتھ خریدی جا رہی ہیں۔