کچھ باتیں دیکھنے سے نہیں بلکہ غور کرنے سے عیاں ہوتی ہیں جیسا کہ اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم برائے تعلیم‘ سائنس و ثقافت (یونیسکو) کے اغراض و مقاصد کو سمجھانے کے لئے ایک قول (عمومی طور پر پائی جانے والی سوچ) کو بیان کیا گیا ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ ”جنگیں ذہنی اختراع (سوچ) سے شروع ہوتی ہیں اِس لئے اِن کا خاتمہ بھی انسانی سوچ کی اصلاح سے ممکن ہے۔“ یہ الفاظ دنیا بھر کے ’اساتذہ کے لئے آزمائش (چیلنج)‘ کی حیثیت رکھتے ہیں‘ جنہیں تعلیم کو بامقصد اور باعمل بنانے کے لئے زیادہ محنت کرنی ہے اور اگر سچ پوچھیں تو یہ اساتذہ ہی ہیں جن سے عالم کو بہتری کی اُمید ہے۔ ایک معلم کی حیثیت سے‘ کوئی بھی شخص امید جیسا جوہر کھونے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ تعلیم کے ذریعے پر تشدد سوچ اورروئیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے گہرے غور و فکر کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے عدم برداشت جیسی اصطلاحات کو آسان بنانا ہوگا۔واضح رہے کہ عدم برداشت کاسامنا پوری دنیا کو ہے جس میں یورپ سرفہرست ہے اور وہاں خاص طور پر مسلمانوں کے حوالے سے عدم برداشت میں اضافہ ہوا ہے۔ یونیسکو نے عدم برداشت کو ”ایسے روئیوں یا طرز عمل کا مظہر (مجموعہ) قرار دیا ہے جو معمول سے ہٹ کر ہوں“ تاہم یہ تعریف فطری طور پر جامع نہیں ہے کیونکہ اِس کے کئی دیگر و مختلف معنی بھی ہو سکتے ہیں۔ اِس سلسلے میں مزید اور تفصیلی وضاحت کے لئے جنوبی افریقہ کے رہنما ڈیسمنڈ ٹوٹو کی پیش کردہ انتہا پسندی کی ایک تعریف سے رجوع کیا جا سکتا ہے جس کے مطابق ”جب آپ کسی دوسرے کے نقطہ نظر کو درست تسلیم کرنے یا مقبول ہونے کی اجازت نہیں دیتے اور جب آپ اپنے ذاتی خیالات کو جامع‘ منفرد اور درست سمجھنے لگتے ہیں اور جب آپ اختلاف کے امکان کی بھی اجازت نہیں دیتے تو ایسی صورت کو انتہاپسندی کہا جاتا ہے جسے ایک مسئلے کے طور پر دیکھا جانا چاہئے۔“ یہ تعریف اس بات کا اشارہ دیتی ہے کہ پر تشدد روئیوں کی روک تھام یا اِس کا مقابلہ کرنے کے لئے تعلیم کو کس طرح استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اگر عدم برداشت کو اختلاف کے امکانات کے لئے ذہنوں کو بند کرنے کے طور پر سمجھا جاتا ہے تو عدم برداشت کی روک تھام یا اس کا مقابلہ کرنے کا مطلب اس کے برعکس ہوگا‘ جو ذہنوں کو اختلاف کے امکانات کے لئے کھول رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تعلیم عدم برداشت کو روک سکتی ہے یا اس کا مقابلہ کر سکتی ہے جبکہ یہ اختلافات کے احترام کو فروغ دیتی ہے اور کھلی تنقیدی سوچ کی حوصلہ افزائی کرتی ہے جو پہلے سے طے شدہ خیالات پر سوال اٹھاتی ہے۔ عمومی طور پر تعلیم نہیں بلکہ تنقیدی سوچ‘ تنقیدی شعور اور رد عمل انتہا پسندی کی روک تھام یا اس کا مقابلہ کرتے ہیں لہٰذا تعلیم کے ذریعے عدم برداشت کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں تعلیم کے مقصد و مقاصد پر غور و فکر کرنا ہوگا۔ ہمیں خود سے اور دوسروں سے یہ بات پوچھنے کی ضرورت ہے کہ کیا تعلیم کا مقصد ”صرف سند (ڈگری) حاصل کرنا ہے“ یا تعلیم کا مقصد دوسروں کی نظر میں قابلیت کی دھاک بٹھانا ہے یا تعلیم کا مقصد اپنے آپ‘ اپنے گردوپیش اور دنیا کو تبدیل کرنا ہے؟ دیکھنا یہ بھی ہے کہ تعلیم ہم سے اور ہم تعلیم سے کیا چاہتے ہیں۔ کیا اِس مرحلہئ فکر پر جبکہ عدم برداشت اور پرتشدد روئیے معاشرے کی رگوں میں سرایت کر چکے ہیں تو ہماری خواہش یہ کہ تعلیم طلبہ کو ہم آہنگی سکھائے یا ہم طلبہ کی آزاد انہ تنقیدی سوچ کے فروغ کی بجائے اِس پر پابندی (قدغن) چاہتے ہیں؟ جامعات میں عدم برداشت کا مؤثر طریقے سے مقابلہ صرف اُسی صورت ممکن ہوگا جبکہ طلبہ کو سوال پوچھنے اور سوال سوچنے (تنقید) کی آزادی ہو۔ اگر نوجوان ذہنوں کے پاس حقیقی دنیا میں سوال اٹھانے‘ اُسے چیلنج کرنے اور اُسے تبدیل کرنے کے جائز طریقے موجود ہیں اور اگر تعلیم انہیں عدم برداشت کو چیلنج کرنے کا کافی موقع فراہم کرتی ہے‘ تو وہ پھر وہ اپنے مقاصد و اہداف کے حصول کے لئے تشدد کی حمایت ہرگز ہرگز نہیں کریں گے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں عدم برداشت کا مقابلہ کرنے کے لئے ’تنقیدی تدریس‘ ضروری ہے۔ تنقیدی تدریسی طریقوں بہت سے ہیں‘ جو کلاس رومز کو سماجی تبدیلی کے مراکز میں تبدیل کرنے کا تصور اور صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کا استدلال یہ ہے کہ کسی معاشرے کے مصائب اُس کے ہاں پائی جانے والی سوچ کا نتیجہ یعنی انسانی ساختہ مظہر ہوتے ہیں اور اجتماعی عمل کے ذریعے اِنہیں کم یا معدوم کیا جاسکتا ہے۔ تنقیدی تدریس بالکل اُسی قسم کی تعلیم ہے جو طالب علم کے ذہن میں مقصد و ذمہ داری کا احساس پیدا کرتی ہے اور طلبہ کو پرامن طریقوں سے حقیقی دنیا میں مثبت تبدیلی لانے کے لئے بااختیار (اہل) بناتی ہے۔ تعلیم کے ذریعے انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے لئے ”آزادی کی تعلیم اور تعلیم کی آزادی“ کو فروغ دینا ہوگا۔ اِسی سے تنقیدی شعور کو فروغ ملے گا۔ اِسی سے ذہنوں کو کنٹرول کرنے کی بجائے ذہنوں کی پرورش ہوگی۔ اِسی سے سوچ کو کنٹرول کرنے کی بجائے سوچ کو فروغ ملے گی۔ اِسی سے محدود سوچ لامحدود ہو جائے گی اور طلبہ زیادہ بااختیار ہوں گے۔ ذہن نشین رہے کہ عدم برداشت کے روئیے اُس وقت اپنی کشش کھو دیتے ہیں جب تعلیم نوجوان ذہنوں کو آزادانہ طور پر سوچنے اور سماجی تبدیلی کی ترغیب دیتی ہے۔ تعلیم ایک وعدہ ہے۔ اِس عہد کے مؤثر طور پر نبھانے کے لئے انسداد عدم برداشت ضروری ہے اور یہ ہدف اُسی وقت حاصل ہو گا جب تعلیم کا مقصد نوجوانوں کو یہ سکھانا اور سمجھانا ہو کہ اُنہیں کیا سوچنا ہے بجائے اِس کے کہ اُن پر کوئی سوچ یا نظریہ اور مطالب مسلط کئے جائیں اور اُنہیں بتایا جائے کہ اُنہیں کیا سوچنا ہے اور اُنہیں تعلیم کے عمل میں کیا سمجھنا چاہئے۔