والدین کی ذمہ داری

ہر بچے کے والدین کی دلی خواہش ہے کہ وہ امتحان میں اچھے نمبرز لے کر کامیاب ہو تاکہ مستقبل میں اچھے کالج میں داخلہ مل سکے۔ تاہم اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے وہ جس راستے یا طریقے کاانتخاب کرتے ہیں وہ غلط ہوتا ہے یعنی بچے پر بے جادباؤ ڈالنے کو وہ مناسب پالیسی سمجھتے ہیں ان کا خیال ہوتا ہے کہ اس طرح بچے ان کا کہنا مانیں گے اور جو وہ چاہتے ہیں وہ ہوکر رہے گا یعنی بچہ کسی بھی شعبہ زندگی میں کامیاب رہے گا۔اکثر والدین اس ضمن میں بچے کی دلچسپیوں کو نظر انداز کردیتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ بچہ کیا چاہتا ہے اور وہ کس شعبے میں دلچسپی لیتا ہے۔یا اس کا فطری رجحان کس طرف ہے۔ بچوں پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی صورت میں بچے احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں، والدین کی سختیوں کے باعث بچہ اپنی خواہش یا جذبات کا اظہار نہیں کرپاتا۔والدین کی بے جا سختی اور پابندیوں کے باعث بچے دماغی مسائل اور تنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں اور اگر بچوں پر توجہ اور ان کی بہترین پرورش نہ کی جائے تو یہی بچے بڑے ہوکر منفی عادات کی جانب راغب ہوسکتے ہیں۔تمام والدین اس بات پر اتفاق کریں گے کہ ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کریں، سکول میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ اور بڑے ہوکر اپنے والدین کا نام روشن کریں۔ تاہم یہ امر مد نظر رہے کہ عام طور پر چھوٹی عمر کے بچے اپنے والدین کی نقش قدم پر چلتے ہیں، والدین کا اندازِ بیان، جذبات کا اظہار وغیرہ سمیت جو کام ماں باپ کرتے ہیں وہی عادات بچے خود پر آزماتے ہیں، یہاں تک کہ بچوں کے ساتھ ہمارا برتاؤ ان کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔اس لئے تو وہ بچے کامیاب ہوتے رہتے ہیں جن کو والدین سے کامیابی کی مثال ملے۔یعنی بچے کی شخصیت آپ کی شخصیت کا عکس ہے، اس کا دوسر ا مطلب یہ ہے کہ بچے کو کچھ سکھانے کیلئے اس کا عملی مظاہرہ آپ نے ہی کر دکھانا ہے۔ یعنی ایسا ممکن نہیں کہ والدین کا طرز عمل کچھ اور ہو اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے کسی اور طرز عمل کا مظاہرہ کریں۔ والدین اگر بچے میں تعلیم اور سیکھنے کے عمل سے لگن کو بیدارکرنا چاہتے ہیں تو ان کو اس کا خود عملی مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ بچوں کو ہمہ وقت تنقید کا نشانہ نہ بنائیں بلکہ بچوں کی تعریف کیا کریں۔اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ بچے کی بے جا تعریف ہو اور اس کو نظم و ضبط سے آزاد کیا جائے۔ہر گھر میں نظم و ضبط اور حدود انتہائی ضروری ہے، مثال کے طور پر بچے کو بہت زیادہ آزادی دینا بھی غلط ہے، یا پھر بچے کو بہت زیادہ پیار کرنا یا ان کی ہر خواہش کو ماننا بھی ٹھیک نہیں ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ گھر میں کچھ حدود مقرر کرلیے جائیں، اس طرح بچے ان قواعد پر عمل کرکے خود کو غلط کام کرنے سے روک سکتے ہیں۔ ایک اور نکتہ جسے اکثر والدین نظر اندازکردیتے ہیں وہ بچوں سے قربت رکھنا ہے۔ بعض والدین بالخصوص باپ اپنے بچوں سے فاصلہ رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ بہت کم وقت گزارتا ہے، اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ بچوں کی تربیت صرف ماں کی ذمہ داری ہے، باپ کی ذمہ داری گھر کا خرچہ پورا کرنا ہے۔لیکن ایسا بالکل نہیں ہے، ماں سمیت باپ کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ بچوں کے ساتھ وقت گزاریں، ان سے دن بھر کا احوال جانیں، ان کے ساتھ چہل قدمی کریں، اور انہیں توجہ دیں۔والدین کی توجہ نہ ملنے سے بچے سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی مرضی کا کوئی بھی کام کرسکتے ہیں، اور اسی اثنا میں وہ کسی کو نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ والدین میں سے والد اور والدہ دونوں کی یکساں ذمہ داری ہے کہ وہ بچے کی شخصیت کے پروان چڑھنے میں اپنا کردار اد کریں اور یہ تب ممکن ہے جب دونوں کو اپنی ذمہ داریوں کوبخوبی علم ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ والدین یہ نہیں جانتے کہ ان کی ذمہ داری کیا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ والدین کو بچے کی شخصیت کی تعمیر کے حوالے سے تمام مراحل کا علم ہو اور اس کی مناسبت سے وہ بچے کی تربیت کرتے جائیں۔اس میں تو کوئی شک نہیں کہ بچے کی تربیت سے بڑھ کر کوئی اور اہم ذمہ داری نہیں، والدین کیلئے بچے ہی سب کچھ ہوتے ہیں،ان کے لئے ہی وہ زندگی کی مشقتیں برداشت کرتے ہیں ایسے میں اگر ان کی تربیت سے غفلت برتی جائے اور ان کی شخصیت میں تربیت صحیح نہ ہونے کی وجہ سے کوئی کمی رہ جائے یہ کمی پھر زندگی بھر ان کے ساتھ رہتی ہے۔