سوشل میڈیا کے دور میں جہاں ہر چیز ضرورت سے زیادہ چمک رہی ہے اور ہر طرف سراب ہی سراب دکھائی دے رہے ہیں تو اِس صورت میں سمارٹ فون ’تعلیم کا بنیادی ذریعہ‘ بن چکا ہے۔ طالب علموں کے ہاتھ میں ڈیجیٹل سکرین ہے‘ جس پر ظاہر ہونے والے مندرجات کو اوپر نیچے (scroll) کرنے سے نت نئے خیالات بھی اُبھرتے ہیں۔ اِس ڈیجیٹل دور کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اِس میں معلومات کی بھرمار ہے اور معلومات کی موسلادھار بارش کے باعث جن درختوں کو پھلدار ہونا چاہئے اُنہیں خاطرخواہ پھلنے پھولنے کا موقع نہیں مل رہا۔ رہنمائی اور تربیت کا فقدان ہے۔ نگرانی اور اصلاح کی اجتماعی کوششوں کا نام و نشان تک نہیں۔ زندگی اب خلوت و تنہائی کے لمحات سے محروم ہو چکی ہے جس میں موبائل فون کی دخل اندازی نئے دور کا المیہ قرار دیا جاتا ہے جیسا کہ معروف شاعر ’ڈبلیو ایچ ڈیوس‘ نے اپنی نظم ’لیژر (Leisure)‘ میں کہا تھا کہ ”اگر زندگی زیرنگرانی ہے اور یہ دیکھ بھال سے بھرپور ہے تو پھر ایسی زندگی کیا ہے۔ (سوچئے کہ آخر کیوں) ہمارے پاس کسی مؤقف پر ڈٹ جانے اور کسی بات پر غور کرنے کا وقت نہیں رہا؟“ وقت آگیا ہے کہ انسان اپنے خیالات کی پیش رفت کو دیکھنے کے لئے لمحات کو ضائع کرنے سے بچے۔ انسان کا اپنی سوچ کے بارے میں تنقیدی طور پر سوچنے کا عمل درحقیقت خوداحتسابی ہوتی ہے جو سوچ کے عمل کی نگرانی اور فیصلہ کرنے کا ایک مناسب طریقہ ہے۔ یہ ہمارے وجود کے کسی بھی اندرونی یا دماغی پہلو کے بارے میں ہمارے نقطہ نظر کی درستگی کا معروضی طور پر جائزہ لینے کا میکانزم ہے۔ محققین اِسی زاویئے سے درسی و تدریسی عمل (تعلیمی نظام) کا جائزہ لیتے ہیں۔ اِس نظام کی موجودہ مشکل یہ ہے کہ سیکھنے اور سکھانے والے دونوں ہی معمول میں پھنسے ہوئے ہیں۔ سیکھنے (تعلیم) کے بعد اِسے یاد رکھنا اور اِس پر عمل (عملی مظاہرہ) کرنے کی الگ الگ جہتیں اور ضرورتیں ہیں۔ جس کے اپنے تقاضے‘ یکسانیت اور حساسیت ہے۔ اگر دوران تعلیم طلبہ کو اِس بات کی تربیت دی جائے کہ وہ اپنی سوچ کے بارے میں سوچیں اور نصاب کی کتب میں سوالات کی بجائے اپنے ذہن میں اُٹھنے والے سوالات کی علمی مشق کریں تو اِس سے تعلیم کا عمل آسان ہو سکتا ہے جبکہ سیکھنے کے عمل میں سوال کی اہمیت ہوتی ہے تو ذہن میں اُٹھنے والے سوالات تعلیم کے عمل کو زیادہ جامع بنانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ سوال اُٹھنے کے بعد اُس کا تعاقب کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ طالب علم گھبراہٹ سے باہر نکل سکے۔ ماہرین ِتعلیم کا اتفاق ہے کہ سوچ پر غور کرنے والوں میں پیدا ہونے والی ذہنی نشوونما اُس عمل سے کہیں زیادہ ہوتی ہے جس میں طالب علم کسی موبائل فون یا کمپیوٹر کی سکرین کو اوپر نیچے کر کے سرانجام دے رہا ہوتا ہے۔درس و تدریس کے حوالے سے اگر اسلامی تعلیمات کا جائزہ لیا جائے تو دن کے آغاز و اختتام پر اپنے معمولات کا احتساب کرنے کی تلقین ملتی ہے۔ زندگی کے معمولات اور اِن معمولات کے نتائج پر ’مسلسل غور‘ کرتے رہنا انتہائی ضروری ہے۔ یورپی درسگاہوں نے مشترکہ طور پر اِس سلسلے میں کی گئی ایک تحقیق (مطالعے) سے اخذ کیا ہے کہ انسان کی سوچ اور اُس کے حاصل کردہ علم کی نہیں بلکہ اُس کی تربیت کی عکاس ہوتی ہے۔ تحقیق میں طالب علموں کے ایک گروپ سے پوچھا گیا کہ تعلیمی مراحل کے اختتام پر اُنہوں نے کیا کچھ سیکھا اور پھر اُن کے جوابات کی روشنی میں تعلیمی و تدریسی عمل اور سوچ کا جائزہ لیا گیا۔ خلاف توقع جواب ’نہیں‘ میں تھا۔ ہمارے تعلیمی نظام میں طالب علموں کو ہر دن لیکچرز پلائے جاتے ہیں۔ اُن کے امتحانات لئے جاتے ہیں اور اُنہیں اعلیٰ و ادنی درجوں (گریڈز) میں تقسیم کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اُن کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں متاثر ہو رہی ہیں اور وہ ایک پھسلن والے راستے پر چلے جا رہے ہیں اور صرف طالب علم ہی نہیں بلکہ اساتذہ بھی ’حقیقی و معیاری تعلیم‘ جس پر سیکھنے کا عمل حاوی ہو‘ جیسی خصوصیت سے مکمل لاتعلقی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔سوچ پر غوروفکر کرنے کو فروغ دینے کے لئے‘ مختلف طریقوں اور حکمت عملیوں کا استعمال کیا جا سکتا ہے جیسا کہ تعلیم کے عمل میں سوال پوچھنے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ خیالات کی جانچ پڑتال کرکے ہم یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ ہمیں کیا حاصل ہوا اور باقی ماندہ حاصل کرنے کے لئے کیا کچھ کیا جا سکتا ہے۔ یہ داخلی تحقیق و احتساب ذہن سازی کا باعث ہوتا ہے‘ جو زندگی کے اعلیٰ مقاصد اور ترجیحات کو حاصل کرنے کی کوششوں میں کامیابی کی شرط ہے۔ سقراط نے ایک موقع پر تعلیم کے جوہر (مقصدیت) کو واضح کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”میں کسی کو کچھ نہیں سکھا سکتا۔ میں صرف انہیں سوچ دے سکتا ہوں اُنہیں (گردوپیش کے حوالے سے) سوچنے پر مجبور کر سکتا ہوں۔“ کسی طالب علم میں اپنی سوچ پر حاوی ہونے اور سوچ سے حاصل ہونے والے زاوئیوں سے سیکھنے کی تربیت و ترغیب بھی یکساں اہم ہے۔ اِس سلسلے میں ایک مشق کروائی جا سکتی ہے جس سے طلبہ خود سے سوال پوچھیں اور خود سے اُس سوال کا جواب بھی تلاش کریں۔ ظاہر ہے کہ کسی مضمون یا موضوع کے بارے میں اُن کے لئے رہنمائی کے طور پر معلم (رہنما) کا موجود رہنا ضروری ہوگا جو درست سمت دکھا سکے۔ سوچ کے فروغ کا دوسرا عمل اصطلاحاً ’ریٹریاسپیکٹو پوسٹ اسسمنٹ‘ کہلاتا ہے جہاں سیکھنے والے اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ کسی مضمون یا موضوع کے اختتام پر اُن کے اندر پائی جانے والی سوچ میں کس حد تک تصوراتی تبدیلی ہوئی ہے اور کسی مضمون یا موضوع کے بارے میں جاننے کے بعد اب اُن کی سوچ کیا ہے۔ یہی وہ مرحلہ فکر اور شعور کا بلند مقام ہے جہاں تعلیم اپنے مقصد و مقصدیت کے قریب ہو جاتی ہے۔ جہاں اساتذہ طلبہ کی سوچ‘ اور اِس سوچ کے تابع عمل میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھتے ہوئے اصلاح و تربیت کرتے چلے جاتے ہیں‘ جو کسی طالب علم کو عظمت دلاتی ہے۔ وہ تعصبات سے بالاتر ہو جاتا ہے اور اُس کی شخصیت (فکر و عمل) پر علم کا رنگ غالب آ جاتا ہے۔ چوالیس برس کی عمر میں ’نوبل عالمی اعزاز‘ حاصل کرنے والے فرانسیسی مفکر و صحافی البرٹ کامو (Albert Camus) نے کہا تھا کہ ”دانشور (علم اور شعور رکھنے والا شخص) وہ ہوتا ہے جس کا ذہن دوسروں کو نہیں بلکہ پہلے اپنے آپ کو دیکھنے‘ پرکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔“