پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ایک مرتبہ پھر واضح کیاہے کہ وہ ہرکسی کے ساتھ بیٹھنے اور بات کرنے کیلئے تیار ہیں وہ گذشتہ چند روز میں اس حوالہ سے بارہا کہہ چکے ہیں انکے دروازے سب کیلئے کھلے ہیں اور ان کو کسی کیساتھ بھی بیٹھنے میں کوئی عار نہیں اس پر یہی کہاجاسکتاہے کہ دیر آیددرست آید کیونکہ سیاست میں لچک اور بارہا ان کالموں میں عرض کیاجاتارہاہے کہ سیاست میں کبھی بھی بات چیت کے دروازے بند نہیں ہوتے ہمارے ہاں جب بھی سیاستدانوں نے باہمی رابطے بند کرکے ایک دوسرے کیساتھ قطع تعلق کیا نقصان ہی اٹھایاباہمی بداعتمادی کافائدہ ہمیشہ سے غیر جمہوری قوتیں اٹھاتی رہی ہیں تاہم ان دنوں بعض سیاسی شخصیات ایسی ہوا کرتی تھیں جن کی ذات پر سب کا اتفاق ہوا کرتاتھا چنانچہ جب کبھی سیاستدانوں کے مابین اختلافات شدت اختیار کرجاتے تھے تو ایسی شخصیات پھر اپناکردار ادا کرتے ہوئے حالات کو معمول پر لانے کیلئے میدان میں اترجاتیں مگر جب بھی میں نہ مانوں والی روش اختیار کی گئی نقصان سسٹم کوہی اٹھانا پڑا نوے کی دہائی اسکی زندہ مثال ہے‘ جب محض نو سا ل کی قلیل مدت میں قوم نے چار مرتبہ اپنے نمائندوں کاانتخاب کیا یعنی جو عمل بیس سال میں ہونا چاہئے تھا وہ نو سال میں ہوا یوں اوسطاً سوا دوسال بعد الیکشن کیلئے میدان سجایا گیا،وجہ صرف اورصرف باہمی بداعتمادی سیاسی عدم برداشت ہی تھی 1988ء میں بینظیر بھٹوبرسراقتدار آئیں تو نوازشریف اور اتحاد ی ایک دن کیلئے پیپلز پارٹی کی حکومت برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہوئے اور محض اٹھارہ ماہ بعد ہی ان کی حکومت ختم کردی گئی 1990میں نوازشریف وزیر اعظم بنے تو پیپلز پارٹی اور اتحادی جماعتیں پہلے روز سے ہی میدان میں اتر تے ہوئے حکومت کی رخصتی کیلئے سرگرم عمل ہوئیں پہلے ٹرین مارچ کیاگیا اورپھر لانگ مارچ کااعلان ہوا تو نواز شریف حکومت بھی قبل ازوقت رخصت ہوگئی‘ 1993میں بے نظیر بھٹو دوسر ی بار وزیر اعظم بنیں تو تاریخ سے سبق حاصل کرنے کے بجائے نوازشریف اور اتحادی جماعتیں پھر سے پہلے دن سے ہی خم ٹھونک کر میدان میں نکل پڑیں اور تحریک نجات شروع کردی اس طرح بے نظیر بھٹوکی دوسری حکومت بھی مدت پور ی نہ کرسکی1997ء میں میاں نواز شریف دوسری مدت کیلئے وزیر اعظم بنے اس بار بھی بے نظیر بھٹو اوراتحادی جماعتیں صبر نہ کرسکیں اور حکومت کے خلاف تحریک مختلف طریقوں سے چلائی جاتی رہی حالانکہ تاریخ میں پہلی بار ملک میں کوئی جماعت بھاری مینڈیٹ کیساتھ دوتہائی اکثریت لے کر برسراقتدار آئی تھی مگر پھر بھی برداشت کامادہ پیدا نہ ہوسکا اورپھر جنرل مشرف نے آ کر سب کی چھٹی کردی کسی زمانے میں پڑھاتھاکہ جب کوئی نیا شوقین فلموں میں کام کرنے کی خواہش لے کر بالی ووڈ کے نامور ہدایتکار و اداکار راج کپور سے ملنے آتا تو وہ ان سے پہلے یہ پوچھتے کہ اداکاری کی تربیت حاصل کی ہے جواب اگر نفی میں ہوتاوہ ان کو پاکستان ٹیلی وژن کے ڈرامے دیکھ کراداکاری سیکھنے کامشور ہ دیتا‘کہاجاتاہے کہ انکے پاس پاکستانی ڈراموں کے ویڈیو کیسٹ موجود ہوا کرتے تھے‘کیا ہی بہتر ہوتاکہ میدان سیاست کے نوواردوں کو بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ کے دو ادواریعنی 1951ء سے 1958ء تک اورپھر 1988ء سے 1999ء کامطالعہ کرنے کی ترغیب دی جاتی دونوں ادوار کے سیاسی عدم استحکام کے حوالہ سے نصاب کے طورپر مختصر کتابیں ترتیب دے کر نوواردان سیاست کو پڑھائی جاتیں تو شاید برداشت کامادہ پیدا ہوتاجاتا یہاں تو ضد ہی یہی ہے کہ میں سب جانتاہوں آپ کچھ نہیں جانتے‘ اپنے تجربات سے سیکھنے کی ضد نے حالات اور سیاسی معاملات کو وہیں کاوہیں کھڑا کیاہواہے اور اسکے نتائج بھی آج ہمارے سامنے ہیں‘ اس سے قبل پی ٹی آئی کے سربراہ کو جب بھی بات چیت کامشورہ دیا جاتا تووہ حسب عادت کرپشن اورچورچور کابیانیہ بیان کرنے لگ جاتے اورصاف کہاکرتے تھے کہ وہ مرجائیں گے مگر چوروں اورڈاکوؤں کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے‘ سوشل میڈیا کی بے لگا م طاقت کو اپنے حق میں دیکھ کر انہوں نے ہمیشہ بات چیت کے دروازے بندکئے رکھے اورپھر رفتہ رفتہ وہ تنہائی کاشکارہوتے چلے گئے ان کے مہربان ایک ایک کرکے ان کاساتھ چھوڑتے گئے اور اس وقت وہ پوری طرح سے تنہائی کاشکار ہیں حتیٰ کہ میڈیا کابڑا حصہ بھی انکے خلاف دوسری جماعتوں کاہم نو ابنادکھائی دیتاہے اسکی بڑی وجہ عمران خان کی متلون مزاجی اور سب اچھا ہے سننے کی وہ عاد ت ہی ہے جو ہماری دیگر سیاسی قائدین کی بھی خصلت بن چکی ہے جب کبھی عمران خان کو مذاکرات کاکہاگیا تمسخراڑاکر انکار کردیا اپنے کارکنوں کے ذہنوں میں بھی یہ بات راسخ کردی کہ باقی تمام سیاسی قائدین چورہیں انکے کیساتھ مذاکرات نہیں ہوسکتے حالانکہ عمران خان ملک کی سب سے مقبول سیاسی جماعت کے قائد بن کر ابھرے تھے پھرجب عدم اعتمادکی تحریک پیش ہوئی اس وقت بھی اگر مذاکرات اوربات چیت کے دروازے کھلے رکھے جاتے تو قبل ازوقت الیکشن کی شرط پر اسوقت کی اپوزیشن جماعتوں کو تحریک واپس لینے پر آمادہ کرنا مشکل نہ تھا فائدہ یہ ہوتاکہ الیکشن کی متفقہ تاریخ مل جاتی اور قوم اس بدترین سیاسی اور معاشی بحران سے بچ جاتی‘کاش کوئی نوابزادہ نصر اللہ خان جیسی غیر متنازعہ سیاسی شخصیت موجود ہوتی تو شاید بہت سے ناخوشگوار مراحل سے قوم کو بچالیا جاتا‘ بہرحال تاخیر سے ہی سہی پی ٹی آئی کے سربراہ کواحساس تو ہوگیاہے کہ بات چیت کے دروازے بندرکھنا سیاسی مصلحتوں کے خلاف ہوتاہے غالباً وہ بھی اپنے تجربے سے سیکھنے کی خواہش میں بہت کچھ گنوا کراب قائل ہوگئے ہیں اور باربار کہہ رہے ہیں کہ وہ سب کے ساتھ بیٹھنے اور بات کرنے کیلئے تیار ہیں اگریہی بیانیہ پہلے اختیار کیاجاتا تو کتنااچھاہوتا لیکن اس وقت نظریہ آرہاہے کہ اب حکومتی اتحادی جماعتیں دروازے بند رکھنے کی پالیسی اختیار کرنے پر متفق ہوچکی ہیں چنانچہ ابھی تک حکومت کی طرف سے پی ٹی آئی کے سربراہ کے اس بیان کامثبت انداز میں جواب سامنے نہیں آسکاہے حالانکہ حکومتی اتحادی جماعتوں میں کہیں زیادہ تجربہ کار اوربردبار سیاسی شخصیات موجودہیں‘ہمارے خیال میں پی ٹی آئی سربراہ کے اس بیان کو سنجیدہ لیتے ہوئے حکومتی جماعتیں کم سے کم تمام اسمبلیوں کے الیکشن کیلئے ایک ہی تاریخ طے کرنے کے معاملہ پر پیشرفت کرسکتی ہیں اس وقت بڑا مسئلہ ہی یہی ہے کہ الیکشن ایک ہی دن منعقد ہوں اسلئے بہترہے کہ بات چیت کادروازہ کھلا رکھاجائے۔