ادویات کی قلت کا پہلا اثر قیمتوں میں خودساختہ اضافے اور اِس منافع بخش دھندے میں ذخیرہ اندوزی جیسے منفی عوامل کی صورت ظاہر ہوتا ہے‘ رمضان المبارک کے آغاز سے چند روز قبل‘ رواں ہفتے ملک بھر کی میڈیسن مارکیٹوں میں ادویات کی قلت ہے اور اِس قلت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کی بنیادی وجہ (بعداز تحقیق) یہ سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں 140 ادویہ ساز اداروں کو حکومت کے منتظم ادارے (ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان المعروف ڈریپ) کے کام کاج پر اعتراض ہے اور میڈیسن کی تیاری میں سرمایہ کاری کرنے والے نجی ادارے ’ڈریپ‘ کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ایک سو چالیس ادویہ ساز اداروں نے قریب 1300 ادویات (مالیکیولز) کے بارے میں ’ڈریپ‘ کو مطلع کیا ہے کہ وہ اِن کی تیاری جاری نہیں رکھ سکتے کیونکہ ملک کے موجودہ اقتصادی بحران کی وجہ سے ادویات کی تیاری میں استعمال ہونے والی پیداواری ضروریات کی قیمتیں مستحکم نہیں‘اِن میں آئے روز رد و بدل ہو رہا ہے‘ جس کی وجہ سے اَدویات کو کسی ایک نرخ پر فروخت کرنا کاروباری نکتہئ نظر سے سودمند نہیں ہوتا قابل ذکر ہے کہ رواں ہفتے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ساتھ ہونے والے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں دواساز کمپنیوں کے ایک سو سے زائد چیف ایگزیکٹو افسران نے حکومت کو ادویہ ساز صنعت کو درپیش مشکلات کے حوالے سے ایک انتہائی مایوس کن صورتحال سے آگاہ کیا چیئرمین پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) سید فاروق بخاری کی قیادت میں فارما انڈسٹری کے اراکین کو طلب کرنے کا مقصد ادویات کے بحران کے حوالے سے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینا تھا‘ اِس میں وفاقی حکومت کی درآمدی اشیاء سے متعلق پالیسی کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران کی شدت و نوعیت کو دیکھا گیا اجلاس کے بعد ’پی پی ایم اے‘ کی طرف سے جاری کی گئی تفصیلات
کے مطابق وقتاً فوقتاً ادویات کی قلت پیدا ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ”ادویات سازی میں جو خام مال استعمال ہوتا ہے وہ زیادہ تر درآمد کیا جاتا ہے ادویہ ساز صنعت شروع دن سے درآمدات پر حد سے زیادہ انحصار کر رہی ہے حتیٰ کہ ادویات کی پیکنگ کرنے جیسی ضروریات بھی درآمد کی جاتی ہیں‘ ایک ایسی صورت حال میں جبکہ عالمی منڈی میں ادویات کی تیاری میں استعمال ہونے والے اجزأ اور خام مال کی قیمتوں میں تیزی سے اضافے ہو رہا ہو روپے کی قدر میں کمی بھی جاری ہو تو فارما انڈسٹری کیلئے اِس صورتحال میں کاروباری سرگرمیاں محدود کرنے کے سوا چارہ نہیں رہتا کیونکہ انتظامی طور پر ادویہ ساز کمپنیاں ادویات کی قیمتوں میں اُس وقت تک اضافہ نہیں کر سکتیں جب تک ایسا کرنے کی وفاقی حکومت سے اجازت نہ ملے مہنگے داموں خام مال کی درآمد کے علاؤہ ایندھن‘ بجلی‘ گیس‘ نقل و حمل (فریٹ) چارجز‘ پیکنگ مٹیریل اور ایکس چینج ریٹ میں غیرمعمولی اضافہ بھی ادویات کی حسب طلب پیداوار اور پرانی قیمتوں پر فروخت و فراہمی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ حکومت کی جانب سے صارفین کے مفاد کا تحفظ کرنے کی کوشش اور ادویہ ساز اداروں کی جانب سے اپنے کاروباری مفادات اور زیادہ منافع کمانے کی کوشش کے باعث 500 سے زیادہ ادویات کی قلت ہے جن میں جان بچانے والی ادویات بھی شامل ہیں۔ ادویہ ساز اداروں کا مؤقف ہے کہ
حکومت ادویہ سازی میں استعمال ہونے والے خام مال و دیگر اشیاء کی درآمد کی غیرمشروط (کھلی) اجازت دے اور ادویہ سازی پر عائد ٹیکسوں میں کمی کی جائے تاکہ عالمی منڈی میں جن متعلقہ اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اُس کی وجہ سے ادویات کی قیمتوں میں زیادہ اضافہ نہ ہواور ادویات عام آدمی کی قوت خرید میں رہ سکیں۔ ذہن نشین رہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر کو کم ہونے سے بچانے کیلئے اسٹیٹ بینک نے بینکوں کو ہدایات جاری کر رکھی ہیں کہ وہ تمام ضروری و غیرضروری اشیاء خصوصاً خام مال کی درآمد کے لئے ’لیٹرز آف کریڈٹ (ایل سیز)‘ نہ کھولیں اور اِس پابندی کی وجہ سے درآمدات رک گئی ہیں یا اِن میں نوے فیصد سے زیادہ کمی آ گئی ہے جو ایک مایوس کن صورتحال کی عکاسی کر رہی ہے کیونکہ غیر ملکی کرنسی بالخصوص ڈالر میں عدم ادائیگی کی وجہ سے پاکستان میں متعدد ادویات کی پیداوار روک دی ہے دوا ساز صنعتوں کی جانب سے اپنی پیداوار روکنے کی دوسری وجہ پاکستان میں ڈالر کی قدر میں بے تحاشہ اضافہ ہے جس کی وجہ سے بیرون ملک سے خام مال کی خریداری نہیں ہو رہی اور نتیجتاً قلت کا شکار ادویات کی تعداد پانچ سو سے بڑھ کر تیرہ سو تک جا پہنچی ہے جس میں وقت کے ساتھ اضافہ صورتحال کو مزید خراب کر دے گا’پی پی ایم اے‘ کی جانب سے حکومت کو واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ تقریباً 140 فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے ادویات کی پیداوار بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں ڈریپ کو اُن تیرہ سو ادویات کی فہرست بھی بھیج دی ہے جن کی تیاری خام مال کی عدم دستیابی یا مہنگائی کی وجہ سے ممکن نہیں رہی ہے اس غیرمعمولی پیش رفت کا سب سے پریشان کن اور حیران کن پہلو یہ ہے کہ جن 1300 ادویات کی تیاری روکنے سے وفاقی حکومت کو آگاہ کیا گیا ہے اُن میں وہ دوائیں بھی شامل ہیں جو دل کی بیماریوں‘ انتہائی نگہداشت کے یونٹس‘ مرگی‘ الرجی‘ بلڈ پریشر‘ شوگر‘ اینٹی بائیوٹک اور بے ہوشی کے لئے استعمال ہوتی ہیں! اِن ادویات کی پورے ملک میں پیداوار اور سپلائی کم ہے‘ یہاں تک کہ او آر ایس سمیت عام استعمال کی ادویات مارکیٹ کی بھی کمی ہے۔ مثال کے طور پر ’ہیپرین‘ ایک جان بچانے والی دوا ہے جو کئی بیماریوں کی شدت کم کرنے کے لئے مریضوں کی ایک بڑی تعداد کو معالجین کی جانب سے عمومی طور پر تجویز کی جاتی ہے اور اِس کی قلت سنگین مسائل کا باعث بنے گی کیونکہ یہ ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں آنے والے مریضوں کو صدمے کی جان لیوا حالت میں فوری طور پر بھی دی جاتی ہے ادویہ ساز اداروں نے اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے حکومت کو آگاہ تو کر دیا ہے کہ یہ ملک کی فارما انڈسٹری کو درپیش مشکلات اور بحران سے آگاہ ہو جو درحقیقت ایک قومی بحران ہے کیونکہ اس کا تعلق لاکھوں لوگوں کی زندگیوں اور صحت سے ہے۔ اگر ادویات کی قلت کے حوالے سے موجودہ صورتحال کو حل نہ کیا گیا تو آج جن 1300 ادویات کی تیاری میں مشکلات درپیش ہیں یہ بڑھ کر ڈھائی ہزار ہو جائیں گی۔