موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والے زرعی نقصانات کا شمار ممکن نہیں۔ اِس سلسلے میں بین الاقوامی برادری پر جس قدر دباؤ ڈالا جا سکتا تھا ڈالنے کے باوجود آب و ہوا کی تبدیلی سے متاثرہ ممالک جن میں پاکستان سرفہرست ہے کی خاطرخواہ مدد نہیں کی گئی۔ وقت ہے کہ پاکستان غذائی خودکفالت اور زرعی معیشت و معاشرت کی بحالی سے جڑے اپنے مسائل کا ممکنہ حل اپنے ہی وسائل اور اُن احتیاطی تدابیر کے اختیار کی صورت تلاش کرے‘ جو فوسل ایندھن کے اثرات کو کم کرنے اور خود کفیل توانائی کی بنیاد پر وافر زرعی پیداوار کی صورت حاصل کئے جا سکتے ہیں۔بنیادی نکتہ یہ ہے کہ پاکستان آبپاشی میں اپنی توانائی کی کھپت کو نمایاں طور پر کم کرسکتا ہے۔ پاکستان میں آبپاشی کے لئے توانائی اور کاربن فٹ پرنٹ کا تعین کرنے والے عوامل مقامی اور عارضی طور پر مختلف ہیں جن کا انحصار فصل کی قسم‘ فصل کے پانی کی ضروریات‘ کشش ثقل اور پمپ شدہ پانی کی مقدار‘ زیر زمین پانی کی سطح اور ڈیزل و بجلی یا شمسی توانائی سمیت پمپنگ کے لئے توانائی کے ذرائع پر ہے۔ حالیہ تحقیقی مطالعے میں دس ہاٹ ایسے اضلاع کی نشاندہی کی گئی جو پاکستان میں چار بڑی فصلوں کی آبپاشی کے لئے توانائی کے کل اخراج کا بیالیس فیصد استعمال کر رہے ہیں۔ یہ گرم مقامات پنجاب کے جنوبی حصے میں واقع ہیں جہاں گندم‘ کپاس اور گنے کی فصلوں کو بنیادی فصل کے طور پر (زیادہ رقبے پر) کاشت کیا جاتا ہے۔ مذکورہ ’ہاٹ اسپاٹ اضلاع‘ کی نشاندہی توانائی کی بچت کے اقدامات کو ہدف بنانے اور پائیدار آبپاشی کے طریقوں کو فروغ دینے کے لئے خاص طور پر اہم ہے۔ ان میں وہاڑی‘ لودھراں‘ ملتان‘ بہاولپور‘ خانیوال‘ بہاولنگر‘ جھنگ‘ رحیم یار خان‘ مظفر گڑھ اور راجن پور شامل ہیں۔ ہاٹ اسپاٹ اضلاع میں روایتی پمپنگ یونٹس (پاکستان کے کل پمپنگ یونٹس کا پچیس فیصد) کو سولر پمپوں سے تبدیل کرکے پاکستان میں پمپنگ توانائی کا بیالیس فیصد بچانا ممکن ہے۔ یہ کافی بچت ہوگی اور طویل مدت میں ایک قابل قدر سرمایہ کاری بھی ہوسکتی ہے۔ اگر ہم دو لاکھ روپے کی اوسط یونٹ لاگت کا اندازہ لگائیں تو ہاٹ اسپاٹ اضلاع میں تین لاکھ سولر پمپ لگانے کے لئے کل چھ سو ارب روپے کی سرمایہ کاری درکار ہوگی۔ اگرچہ یہ بڑی رقم ہے لیکن ممکنہ طویل مدتی لاگت کی بچت کو مدنظر رکھتے ہوئے مستقبل میں اہم سرمایہ ہوسکتی ہے۔ دو سال کے اندر یہ سرمایہ کاری موجودہ پمپنگ انرجی کے بیالیس فیصد کی کمی کا باعث بنے گی جس سے نمایاں بچت ممکن ہے۔ مزید برآں ملک کے ریتلے علاقوں جیسا کہ تھل‘ تھر‘ چولستان‘ پوٹھوہار‘ جنوبی خیبر پختونخوا (کوہاٹ سے لکی مروت تا بنوں) اور بلوچستان میں قیمتی زیر زمین پانی کی کمی سے بچنے کے اقدامات پر سختی سے عمل درآمد کے لئے ڈرپ اور اسپرنکل آبپاشی کے ساتھ سولر پمپنگ انضمام کو یقینی بنانے کے لئے قومی پالیسی کی ضرورت ہے۔ درحقیقت زراعت کے شعبے میں قابل تجدید توانائی کو اپنانے‘ خاص طور پر شمسی توانائی سے چلنے والی آبپاشی‘ ملک کو بہت سے فوائد دلا سکتی ہے جیسا کہ کاربن کے اخراج میں کمی‘ توانائی کی آزادی کا فروغ اُور کسانوں کو قابل اعتماد و بھروسہ توانائی کے ذرائع فراہم کرنا شامل ہے۔ تاہم اس مسئلے کو ایک بہت ہی واضح نقطہئ نظر اور جامع منصوبہ بندی کی صورت میں دیکھنا ضروری ہے جو ہر خطے کے مخصوص سیاق و سباق سے متعلق ہے۔ قابل تجدید توانائی اپنانے کو حل کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہئے۔ اس کی بجائے‘ اسے ایک ایسے آلے کے طور پر دیکھا جائے جس میں مقامی آبادیوں (کمیونٹیز) کی ضروریات اور زمینی حقائق کے مطابق اپنی مرضی کے مطابق بنانے اور ڈھالنے کی صلاحیت موجود ہے لہٰذا ضروری ہے کہ زرعی ترقی و اصلاح کے لئے قلیل‘ درمیانی اور طویل مدتی اہداف وضع کئے جائیں جو ہر خطے کے مخصوص اہداف اور چیلنجوں کی عکاسی کرتے ہوں اور کسان برادریوں کو ٹیکنالوجی پر منحصر زراعت سے روشناس کرانے کے لئے سبسڈی اور تکنیکی معاونت جیسی مناسب مدد فراہم کی جائے۔ مزید برآں قابل تجدید توانائی کو اپنانے کے ممکنہ غیر متوقع نتائج پر بھی نظر رکھنا ضروری ہے نیز ایسے قواعد و ضوابط اور ترغیبات تیار کرنا ہیں جو ملک بھر میں قدرتی وسائل کے پائیدار استعمال کی حوصلہ افزائی کرتے ہوں۔ پاکستان کے ہر صوبے میں ’زرعی تحقیق‘ سارا سال ہوتی رہتی ہے لیکن اِس زرعی تحقیق کے ثمرات خاطرخواہ وسیع نہیں ہیں اور نہ ہی صوبے زرعی تحقیق کا ایک دوسرے سے تبادلہ کر رہے ہیں۔ قابل تجدید توانائی کے امکانات کی تلاش و تجویز اپنی جگہ اُور آبپاشی کے ماحول دوست و پائیدار ذرائع کی کوششیں بھی یکساں اہم ہیں‘ جنہیں مرحلہ وار عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے لیکن آبپاشی والی زراعت میں شمسی توانائی کی ایپلی کیشنز کو واضح‘ مختصر‘ درمیانی و طویل مدتی اہداف کے ساتھ فوراً اپنایا جانا چاہئے کیونکہ پہلے ہی تاخیر (کوتاہی) ہو چکی ہے۔