پاکستان سپر لیگ کے آٹھویں ایڈیشن نے مقبولیت کے ریکارڈ بنا ڈالے اور بین الاقوامی میڈیا میں اسے جس طرح بھر پور کوریج ملی ہے اس نے ثابت کیا کہ پاکستان میں کرکٹ کا معیار کسی بھی ملک سے کم نہیں۔پاکستان سپر لیگ کا آٹھواں ایڈیشن کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا۔پی ایس ایل 8 میں اگر کچھ چیزیں روایتی تھیں تو کچھ جدتیں بھی اپنائی گئیں جس نے اس لیگ کو پہلی مرتبہ ایمرجنسی لیگ سے نارمل لیگ کا روپ دیا۔حالیہ لیگ میں پہلی دفعہ ہوم اور اوے میچوں کا ایک اصل روپ سامنے لایا گیا۔ اگرچہ یہ اصول لیگ کے پہلے ایڈیشن سے لاگو ہے لیکن متحدہ عرب امارات میں جب لیگ ہورہی تھی تو وہاں ایسا قطعی طور پر ممکن نہیں تھا۔ جب پاکستان میں لیگ بھرپور انداز میں شروع ہوئی تب بھی یہ مختلف فیز میں رہی اور اصل روپ سامنے نہ آسکا۔ شاید سیکیورٹی اور لاجسٹک کے مسائل کے باعث منیجمنٹ نے نصف میچ ایک وینیو اور نصف دوسری جگہ رکھے تھے۔ لیکن حالیہ پی ایس ایل میں پہلی دفعہ دو ریجن بناکر ہوم اور اوے میچ کروائے گئے۔پشاور زلمی اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے اپنے ہوم میچ راولپنڈی اور کراچی میں کھیلے لیکن باقی چار ٹیمیں اپنے شہروں میں کھیلتی رہیں۔ پہلی دفعہ ایک شہر میں میچ ایک دن ہی کھیلا گیا اور دوسرے دن دوسرے شہر میں ٹیمیں پہنچیں جس سے پی ایس ایل میں مسابقت کا رجحان بڑھ گیا۔دنیا بھر میں جہاں جہاں کرکٹ لیگز ہورہی ہیں ناقدین انہیں فکسنگ اور منی میکنگ قرار دیتے ہیں۔ زیادہ تر میچ مقابلے سے عاری اور محض ایک نمائش سے زیادہ نہیں ہوتے۔ لیکن پی ایس ایل نے پہلے دن سے اس الزام کی نفی کی ہے ماضی میں بڑی تعداد ایسے میچوں کی ہے کہ جب فیصلہ آخری گیند پر ہوا اور میچ کی سنسنی خیز کیفیت آخر وقت تک قائم رہی۔ہفتے کو کھیلے گئے فائنل نے شائقین کو اعلی درجہ کی کرکٹ کے ساتھ جیت کی جدوجہد کا رنگ دکھادیا۔ میچ کی آخری گیند پر ایک رن سے لاہور قلندرز کی جیت 34 دن کے اس ٹورنامنٹ کا اہم حصہ تھی۔ اس لیگ میں ہر میچ اگلے میچ کے لیے بنیاد بنتا رہا اور ہر ٹیم کو آگے جانے کی امید دیتا رہا۔ اگر پی ایس ایل کے میچوں کو ایک جھلک میں دیکھا جائے تو وہ آئی پی ایل کے مقابلے کے نظر آتے ہیں۔ آئی پی ایل میں کرکٹ کم اور شوبز زیادہ ہوتا ہے لیکن پی ایس ایل نے مسابقتی کرکٹ میں نئی روح پھونک دی ہے۔چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ مینجمنٹ کمیٹی نجم سیٹھی نے فائنل میچ سے قبل پریس کانفرنس میں بتایا کہ پی ایس ایل کے اس سیزن نے ڈیجیٹل ریٹنگ میں انڈین پریمیئر لیگ کو پیچھے چھوڑ دیا، انہوں نے بتایا کہ پی ایس ایل کے آٹھویں سیزن نے 150 کی ڈیجیٹل ریٹنگ حاصل کی جبکہ آئی پی ایل 130 ریٹنگ حاصل کرسکا۔پی ایس ایل ہر سال کچھ نئے باصلاحیت کھلاڑی سامنے لے کر آتی ہے جو کچھ ہی دنوں میں قومی ٹیم کے رکن بن جاتے ہیں۔ اس سال بھی نیا ٹیلنٹ سامنے آیا لیکن اس بار یہ پہلے سے بہت زیادہ ہے۔ احسان اللہ، عباس آفریدی، صائم ایوب اسامہ میر، عثمان خان جیسے اگر نئے ٹیلنٹ سامنے آئے تو اعظم خان، محمد حارث، زمان خان اور بہت سے کھلاڑیوں کی کارکردگی میں نکھار آیا۔ ان کو زیادہ مواقع ملے اور شائقین کو بھرپور کرکٹ دیکھنے کو ملی۔ اگر کچھ کھلاڑیوں کو اس سال کی دریافت کہا جائے تو وہ صائم ایوب عثمان خان اور عباس آفریدی کہے جاسکتے ہیں۔لاہور قلندرز کی ٹیم لیگ کی پہلی ٹیم بن گئی جس نے مسلسل 2 سال لیگ جیتی اور خوب جیتی۔اگرچہ قلندرز کو اپنے اس سفر میں میک کولم جیسے کپتان میسر رہے، بہترین بیٹنگ اور بالنگ ساتھ رہی لیکن قسمت کی دیوی ان پر مہربان نہیں تھی۔ اب شاہین شاہ آفریدی کی کپتانی میں قسمت کی دیوی بھی مہربان ہوگئی تو چمچماتی ہوئی ٹرافی تک رسائی بھی ہوگئی۔پی ایس ایل 8 کچھ کھلاڑیوں کے لئے آخری پی ایس ایل بھی ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ ان کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ان کا پھر سے کسی فرنچائز میں منتخب ہونا بہت مشکل نظر آتا ہے اور حالیہ سیزن میں بھی وہ کچھ زیادہ نہیں کرپائے۔پاکستان ٹیم کے سابق کپتان اور مایہ ناز آل راؤنڈر محمد حفیظ اس فہرست میں سب سے اوپر نظر آتے ہیں۔ بنگلہ دیش کے خلاف 2003 میں اپنے کیریئر کا آغاز کرنے والے حفیظ کی صحیح پہچان اس وقت ہوئی جب ٹی20 کرکٹ کو فروغ حاصل ہوا۔ محمد حفیظ نے اگرچہ پاکستان کے لئے تینوں فارمیٹ کی کرکٹ کھیلی اور ہر جگہ نام بنایا لیکن ٹی20 کرکٹ میں وہ ایک منجھے ہوئے آل رانڈر ثابت ہوئے۔ حفیظ ہارڈ ہٹنگ میں تو شہرت رکھتے ہی ہیں لیکن اپنی اسپن بالنگ سے بھی ہمیشہ نمایاں رہے ہیں۔ پی ایس ایل میں ان کا آغاز تو لاہور قلندرزکے ساتھ ہوا لیکن 2 سال بعد وہ پشاور زلمی میں چلے گئے۔جب انہوں نے 2022 میں انٹرنیشل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تواس کا اثر ان کی پی ایس ایل میں شرکت پر بھی پڑا اور پی ایس ایل 8 کی ڈرافٹنگ میں کسی بھی فرنچائز نے ان کو حاصل کرنے میں دلچسپی نہیں دکھائی۔ لیکن وہ خوش قسمت رہے کہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے احسان علی زخمی ہوگئے تو قرعہ فال ان کے نام نکل آیا اگرچہ ان کی کرکٹ ابھی بھی باقی تھی لیکن وہ خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھاسکے۔محمد حفیظ نے پی ایس ایل کے 78 میچوں میں 1731 رنز بنائے ہیں اور اب شاید مزید نہ بن سکیں کیونکہ اگلے سیزن میں ان کی شمولیت کے امکانات صفر کی حد تک ہیں۔ دوسرا نام وہاب ریاض کا ہے۔اپنی رفتار سے شہرت حاصل کرنے والے وہاب ریاض پاکستان کے تیز ترین باؤلرز میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے پہلے سیزن سے پشاور زلمی کی نمائندگی کی اور اس سیزن تک انہیں کے ساتھ رہے ہیں۔ وہاب ریاض نے 88 میچوں میں 113 وکٹ حاصل کی ہیں جہاں وہ سرفہرست نظر آتے ہیں اور اگلے سیزن تک شاید ان کا ہی نام سب سے زیادہ وکٹ لینے والوں لکھا جائے۔ لیکن اس سیزن میں ان کی باؤلنگ متاثر کن نہیں رہی ہے جس سے ان کے لئے آئندہ سیزن مشکل نظر آتا ہے‘ کولن منرو، بین کٹنگ، کیرن پولارڈ، جمی نیشم اور شرجیل خان بھی ان کھلاڑیوں میں شامل ہیں جن کے لئے اب جگہ مشکل ہوجائے گی۔ بہت سے نوجوان کھلاڑیوں نے اس سیزن میں خود کو منوایا ہے اور اپنی کارکردگی سے سب کو حیران کیا ہے، ان کی شمولیت سے ٹیمیں مضبوط ہوجائیں گی۔