اتحاد بین المسلمین کے داعی، بلیغ مفکر و حکیم علامہ سیّد شہنشاہ حسین نقوی حفظ اللہ رواں ہفتے ایک روزہ مختصر دورے پر پشاور تشریف لائے اور اِس دوران کئی مقامات پر خطاب کیا۔علامہ شہنشاہ حسین نے ”اَز روئے قرآن انسان کی درجات اور صبر‘ شکر و ایثار کی اہمیت“ کے مختلف پہلوؤں پر مدلل و جامع خطاب کیا جس کا ہر ایک لفظ محفوظ ہے اور چند ہی روز میں سوشل میڈیا پر لاکھوں افراد نے سن اور دیکھ کر یقینا اُس سے فائدہ اُٹھایا ہے اور یہ صدقہ جاریہ کی صورت علم پھیلنے اور پھیلانے جیسے مقدس فریضے کی ادائیگی بھی ہے۔ ایسے باوقار اور اسلام کی زینت‘ اتحاد بین المسلمین کے داعی علمائے کرام کو باقاعدگی سے پشاور مدعو کرنا چاہئے تاکہ علمی و ادبی ماحول پر طاری یکسانیت کا خاتمہ ممکن ہو سکے اور پشاور میں امن و بھائی چارے کی فضا کو بھی فروغ حاصل ہو۔خیبرپختونخوا کی ’تھک ٹینک تنظیم‘ اِمامیہ کونسل کے پلیٹ فارم سے افغانستان کی مدد کی اپیل کرتے ہوئے وہاں ہر قسم کی خارجہ مداخلت ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اِس سلسلے میں ایک نہایت ہی اہم مسئلے کی جانب اشارہ ہوا جو افغانستان میں اشیائے خوردونوش کی کمی سے متعلق ہے اور اِس کے باعث وہاں بحرانی کیفیت ہے۔ توجہ طلب ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب دنیا متعدد بحرانوں سے نبرد آزما ہے‘ ایسا لگتا ہے کہ افغانستان کے عوام کی مشکلات حاشیے پر چلی گئی ہیں یعنی عالمی توجہ اور ترجیحات سے اوجھل ہیں۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ”ورلڈ فوڈ پروگرام“ کے مطابق مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے لاکھوں افغانوں کو دی جانے والی اشیائے خوردونوش کی مقدار میں کٹوتی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ افغانستان انواع و اقسام کے بحرانوں سے دوچار ہے اور افغانیوں کو پہلے سے زیادہ امداد کی صورت سہارے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک الگ تھلگ اور دنیا کی انتہائی غریب و پسماندہ آبادی ہے جس کے ہاں ترقیاتی و ملازمتی مواقع محدود ہیں اور اِسے ہر معاشی اقدام و بہتری کیلئے کسی نہ کسی ملک پر انحصار کرنا پڑتا ہے بالخصوص جب ہم بیرونی امداد کی بات کرتے ہیں افغانستان کی معیشت کا بیرونی امداد پر حد سے زیادہ انحصار ہے‘ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق ”نوے فیصد“ افغانوں کی حالت زار ایسی ہے کہ وہ خوراک خریدنے کے متحمل نہیں‘ بچوں اور خواتین کی حالت الگ سے خراب ہے۔ بوڑھے اور معمر افراد کو ادویات دستیاب نہیں جبکہ ملک کی بڑی آبادی کو انسانی بحران سے نکالنے کیلئے ہر قسم کی امداد کی ضرورت ہے‘ افغانستان کی بدحالی کی کئی وجوہات ہیں‘ سب سے اہم حقیقت یہ ہے کہ ملک کئی دہائیوں سے غیر ملکی سرپرستی میں ہونے والی جنگوں کے ساتھ‘ اِن جنگوں کے نتیجے کے طور پر اندرونی کشمکش کا شکار اور عدم استحکام سے دوچار ہے‘ مزید برآں‘ اگرچہ افغانستان میں حکمران تبدیل ہوئے ہیں لیکن عوام کی مشکلات اور بحران جوں کے توں برقرار ہیں‘ پاکستان سمیت بین الاقوامی برادری نے ابھی تک افغان حکومت کو تسلیم نہیں کیا جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہاں بنیادی انسانی حقوق‘ خاص طور پر خواتین کی آزادی پر پابندیاں عائد ہیں‘ اس وجہ سے افغانستان دنیا سے الگ تھلگ اور بین الاقوامی مالیاتی نظام سے کٹ کر رہ گیا ہے اور بیرونی دنیا کیساتھ اِس کے معاشی و امدادی رابطے بھی محدود ہیں‘ اِس صورتحال میں اگر افغانستان کو عطیات دینے والے بھی منہ موڑ لیں گے اور عالمی معاشی صورت حال بھی خراب رہے گی تو اِس سے افغانستان میں موجود بحران کی شدت میں کمی نہیں آئے گی بلکہ اضافہ ہوگا‘ ایک معاشی طور پر سنبھلا ہوا افغانستان ہی اِس قابل ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی سرزمین اور وسائل اپنے ہمسایہ ممالک پاکستان کیخلاف استعمال نہ ہونے دے‘ فی الوقت دنیا کے بہت سے ممالک ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی افغان حکومت کی مدد نہیں کر رہے یا مدد کرنے سے ہچکچا رہے ہیں جس کی افغان عوام کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے‘ سمجھنا ہوگا کہ ایک عام افغان کا اِس پوری صورتحال سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی وہ قصوروار ہے کہ اُسے سزا دی جائے‘ عالمی برادری کی یہ اخلاقی ضرورت ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ بنیادی انسانی ضروریات مثلا خوراک‘ ادویات وغیرہ افغانستان میں پہنچتی رہیں۔ مثال کے طور پر اگر امریکہ افغانستان میں جنگ پر 2 کھرب ڈالر سے زیادہ خرچ کر سکتا ہے اور یورپی ممالک روس کے خلاف یوکرین کو مسلح کرنے کیلئے اربوں ڈالر اسلحے پر خرچ کر سکتے ہیں تو افغانوں کی میزوں پر خوراک رکھنے کیلئے درکار چند لاکھ ڈالر ہی درکار ہیں۔ مزید برآں‘ افغانستان میں قدرتی وسائل موجود ہیں جنہیں ترقی دے کر جنگ زدہ ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جا سکتا ہے‘وہ مسلمان ممالک جو پیٹرولیم ذخائر کی وجہ سے مالا مال ہیں اُنہیں مسلم اُمہ کا جز ہونے کے ناطے افغانستان کی مدد کرنا چاہئے‘ آئندہ ایک دو روز میں ’رمضان المبارک کا آغاز‘ ہونے والا ہے اور افغانستان سے آمدہ اطلاعات کے مطابق وہاں بھوک و افلاس نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں‘ کسی بھی مسلم ملک بالخصوص ہمسایہ مسلم ممالک کو موجودہ حالات میں افغانستان کی زیادہ مدد کرنی چاہئے۔ البتہ اگر اِس بات کا اندیشہ ہے کہ افغان عوام کو دی جانے والی امداد حکومت کی تقویت کا باعث بنے گی تو اِس سلسلے میں انتظامات کئے جا سکتے ہیں کہ امداد کا بڑا حصہ صرف اور صرف عام افغانوں تک پہنچے‘ مسلم اور غیر مسلم ملک افغانستان کی مدد اقوام متحدہ یا دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں اور گروہوں کے ذریعے کر سکتے ہیں‘ جن کے افغانستان میں کارکن موجود ہیں۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ ’ورلڈ فوڈ پروگرام‘ کی جانب سے خوردنی اشیاء کی مقدار میں کٹوتی سے رمضان المبارک کے دوران افغانستان میں خوراک کا بحران شدت اختیار کر جائے گا۔