ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق سال 2022ء کے دوران 7 لاکھ 65 ہزار سے زیادہ لوگوں نے پاکستان چھوڑا کیونکہ اُنہیں صرف روشن مستقبل ہی کی تلاش نہیں تھی بلکہ وہ اپنے معاشی مستقبل کو زیادہ محفوظ بھی دیکھنا چاہتے تھے اور اِس قدر بڑی تعداد میں ذہین و محنت کش لوگ اگر کسی ملک کو چھوڑ کر چلے جائیں تو یہ ایک خطرناک رجحان ہے جو ”برین ڈرین (ذہانت کی نکاسی)“ بھی ہے۔اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے مطابق ”پاکستان دنیا کی کم عمر ترین آبادی میں سے ایک ہے جہاں نوجوانوں کی شرح خواندگی 75.59 فیصد ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کی سب سے کم عمر نوجوان آبادی والا ملک معاشی طور پر غیر محفوظ کیسے ہو سکتا ہے؟ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای) ایک ایسا ادارہ (پلیٹ فارم) ہے جس کے ذریعے نوجوانوں کی سوچ یا متفکر ذہنیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اُنہیں باور کرایا جاتا ہے کہ کوئی بھی تعلیمی ڈگری پروگرام محفوظ معاشی مستقبل کی ضمانت نہیں دیتا لیکن اگر تعلیم کے ساتھ تحقیق اور جستجو کی لگن پیدا کر لی جائے اور تن آسانی کی بجائے محنت کو زندگی کا رہنما اصول بنایا جائے تو مہارت و تخلیقی صلاحیتیں کے ذریعے زندگیاں بہتر بنائی جا سکتی ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ حال ہی میں ”اعلی تعلیم اور سیاسی معیشت“ کے عنوان سے ایک نشست کے دوران بے روزگار گریجویٹس کے مسائل اور اعلی تعلیم کے معیار پر تبادلہ خیال ہوا۔ مختلف شعبوں کے ماہرین اور صحافی اِس نشست کا حصہ تھے اور ہر کسی کے پاس صورتحال کو اپنی نظر سے دیکھنے کے دلائل موجود تھے۔ مقررین کا آرأ میں اتفاق رائے پایا گیا کہ بہت سے ترقی پذیر ممالک بھی اعلی تعلیم کے نظام میں مسائل سے دوچار ہیں اور جب پاکستان کا جائزہ لیا جائے تو ہمارے ہاں ہر درجے کی تعلیم تو موجود ہے لیکن اِس تعلیم کے معیار پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی جاتی۔ حیران کن طور پر پاکستان میں سب سے زیادہ بے روزگار فارغ التحصیل نوجوانوں (گریجویٹس) کی ہے! حکومتی اعدادوشمار کے مطابق تعلیمی اسناد (ڈگریاں) رکھنے والے اکتیس فیصد سے زیادہ نوجوان بے روزگار ہیں جبکہ اوسطاً کسی گریجویٹ کو ملازمت حاصل کرنے میں تقریبا ًدس سال یا اِس سے بھی زیادہ کا وقت لگتا ہے۔کم معیار کی جامعات (یونیورسٹیوں) کے ذریعہ کے کم معیار کے گریجویٹس بڑی تعداد میں تیار ہو رہے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر طارق بنوری نے دعویٰ کیا تھا کہ ”پاکستان کا تعلیمی نظام اچھے طالب علم یا اچھے شہری پیدا کرنے سے قاصر ہے۔“ اور یہ مختصر تبصرہ پاکستان میں معیار تعلیم کی حقیقت کا بہت بڑا بیان ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ بالخصوص اعلیٰ تعلیم کا معیار بہتر بنانے کے لئے روایتی طریقوں سے نہ سوچا جائے یعنی ’آؤٹ آف باکس سلوشن‘ کے بارے میں سوچنا ہوگا تاکہ نوجوانوں کی درست رہنمائی کی جا سکے۔ جدید خیالات و تصورات کو فروغ دیا جائے اور کاروباری مواقع پیدا کئے جائیں۔ محاورہ ہے کہ ”ایک ہزار میل کا سفر ایک قدم سے شروع ہوتا ہے۔“ یہ محاورہ اعلیٰ تعلیم کے سفر پر صادق آتا ہے اور اِسے اہم قدم کے طور پر دیکھا اور سمجھا جانا چاہئے اور اس کو فروغ دینے کے لئے ایک مشترک پلیٹ فارم کی ضرورت ہے۔ تعلیمی اداروں میں کھیلوں کے مقابلے‘ سال کے اختتام پر پارٹیاں اور تعلیم کے عملی اطلاق سے جڑے تخلیقی پہلوؤں کے بارے میں طلبہ کی رہنمائی بہت سی مشکلات کو آسان بنا سکتے ہیں۔ سرکاری و نجی شراکت داری سے اعلیٰ تعلیم کے معیار اور اِس کے ذریعے تحقیق کو بہتر و حسب ضرورت بنایا جا سکتا ہے۔ کالج اور یونیورسٹیز کے طلبہ کو کتابوں سے زیادہ عملی تجربات کے ذریعے اپنی دلچسپیوں اور سوچ کے اظہار کا موقع ملنا چاہئے بالکل اسی طرح جیسے بڑے برانڈز کو مختلف صوبائی تقریبات میں شرکت کا موقع دیا جاتا ہے۔ ہم ان تقریبات کو اپنے نوجوانوں کے لئے کاروباری مواقع کو فروغ دینے کے لئے بروئے کار (استعمال میں) لا سکتے ہیں نوجوانوں کو زندگی کے کس شعبے میں کس طرح کی اور کس درجے کی مہارت درکار ہے اِس بات کا تعین اُسی وقت ہوگا جب وہ عملی زندگی کا سامنا کرنے کے لئے تیار و آمادہ ہو اور اِس مقصد کے لئے ’انٹرپرینیورشپ‘ بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ گریجویشن یا ماسٹر ڈگری پروگراموں کے بعد نوجوان نسل کا زیادہ تر وقت مناسب ملازمتوں کی تلاش میں صرف ہوتا ہے جبکہ اکثریت کو ملنے والی ملازمتیں اُن کی پیشہ ورانہ ڈگریوں (تعلیم و سمجھ بوجھ) کے مطابق نہیں ہوتیں۔ یہی فیصلہ کرنے کا وہ نازک وقت ہوتا ہے جب وہ اپنی صلاحیتوں کو دفن کرتے ہیں یا اپنی صلاحیتوں سے گردوپیش (معاشرے) کو فائدہ پہنچانے کی مشکل راہ اپناتے ہیں۔ تعلیم کا حقیقی مطلب سیکھنا اور تلاش کرنا ہے۔ صرف تعلیم کو ’اپ گریڈ‘ کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے‘ نوجوانوں کو اپنے اور قومی مفادات کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ اُنہیں تعلیم کے ساتھ اِس کا عملی اطلاق کس حد تک سیکھنا ہے اور اِس سے وہ کیا کچھ کما (حاصل) کر سکتے ہیں اور قومی ترقی میں شریک ہو کر اپنا کس قدر حصہ ڈال سکتے ہیں۔نوجوانوں میں خودروزگار (کاروبار) شروع کرنے کی سوچ نہیں پائی جاتی۔ یہ زیادہ عملی زندگی کی مشکلات (چیلنجوں اور رکاوٹوں) سے نمٹنے کے لئے خاطرخواہ تفہیم (معلومات) نہیں رکھتے لیکن اگر امید افزا پروگراموں اور ترقی پسند معیشت کی توسیع کے حوالے سے رہنمائی کی جائے تو اجتماعی معاشی کے اہداف حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت کا مقصد خاص طور پر پیداواری روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہوتا ہے اور ایسے امور تک رسائی کی فراہمی ہوتی ہے جس کے ذریعے مناسب اجرت ملے ہمارے نوجوان باصلاحیت ہیں لیکن اِنہیں رہنمائی کی ضرورت ہے جس کے لئے اعلیٰ تعلیم کے سرکاری و نجی ادارے (کالجز و جامعات) نئی نسل کو ”نئے راستے اور نئی منزلوں کی تلاش“ جیسے تصورات سے روشناس اور اِنہیں عملی زندگی کے تبدیل شدہ تقاضوں بہرہ ور کر کے کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ نچلی سطح پر تعلیمی سیمینارز اور کانفرنسوں کے انعقاد‘ مالیاتی سطح پر سٹارٹ اپ گرانٹس اور پالیسی کی سطح پر کاروبار کرنے کے لئے سرمایہ کاری کی صورت آسانیاں فراہم کرنے سے نوجوانوں کو بااختیار بنانے میں مدد مل سکتی ہے‘ جس سے سماجی و معاشی ترقی کے اہداف حاصل ہوں گے اور نوجوان بیرون ملک نہیں بلکہ اندرون ملک رہتے ہوئے پاکستان کی قومی ترقی کے ضامن بن کر سامنے آئیں گے۔