چین کے وزیر خارجہ ’وانگ یی‘ کی ایران کے اعلیٰ سکیورٹی اہلکار علی شمخانی اور سعودی عرب کے قومی سلامتی کے مشیر معید الایبان کے درمیان ہاتھ ملانے کی تصاویر عالمی سطح پر ’شہ سرخیوں‘ کی زینت بنیں جو نمایاں طور پر چین کی طاقتور سفارتکاری اور اِس کے اُبھرتے ہوئے کردار‘ کامیابیوں‘ نئی جہتوں اور توسیع کے نئے امکانات کو اُجاگر کر رہی تھیں۔ مذکورہ معاہدہ مشرق وسطیٰ کے امن اور خطے میں چین کے پہلے سے موجود اثر و رسوخ کو مزید بڑھانے کی صلاحیت کا بیان بھی ہے۔ رواں ہفتے (بیس سے بائیس مارچ دوہزارتئیس) چین کے صدر ژی جن پنگ نے روسی ہم منصب کی دعوت پر روس کا دورہ کیا جس دوران اگرچہ دفاعی شعبے میں کسی بھی قسم کے تعاون یا دفاعی اتحاد بنانے کا اعلان نہیں ہوا لیکن دو ہمسایہ عالمی طاقتوں کے درمیان تجارت اور تعاون بڑھنے کے لئے کئی ایک مفاہمتی یاداشتوں پر دستخط ہونے کی سرکاری سطح پر تصدیق کی گئی ہے۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ چین کا عالمی اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے‘ مشرق وسطیٰ میں اس کے تعلقات اور اثروروسوخ میں نمایاں (ڈرامائی طور پر) اضافہ ہوا ہے‘ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین عرب دنیا کے ساتھ جامع شراکت داری قائم کرنے کے لئے پُرعزم ہے۔ اس پیش رفت نے اقتصادی ترقی پیدا کرنے اور خطے کے مختلف ممالک کے ساتھ چین کے تعلقات کو مضبوط بنانے کے لئے ایک لائحہ عمل بھی (فریم ورک) بھی پیش کیا ہے۔ آج مشرق وسطیٰ میں چین کا بڑھتا ہوا غلبہ اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ چین نہ صرف اہم معاشی کھلاڑی ہے بلکہ عرب ریاستوں کے درمیان دفاعی تعاون کا فروغ بھی چاہتا ہے اور وہ اپنی اِس کوشش میں بڑی حد تک کامیاب ہو گیا ہے۔ چین عالمی سطح پر ’ایک کے بعد ایک‘ اتحاد قائم کرتا چلا جا رہا ہے۔ چین تجارت کے فروغ اور ترقی کی شراکت داری کے ذریعے تنازعات حل کر رہا ہے اور مشکل وقت میں بحرانوں سے نمٹنے میں ممالک کی ہر طرح سے مدد بھی کر رہا ہے۔ اس طرح پورے مشرق وسطی میں مضبوط تعلقات کی تعمیر کے لئے خارجہ پالیسی کو وسیع کر کے دوطرفہ بلکہ سہ طرفہ فوائد اٹھا رہا ہے۔ چند برس قبل جب امریکہ نے چین کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کوشش کی تو اُس کے بعد سے چین کی سفارتکاری کو بطور ردعمل وہ عروج دیا گیا جو امریکہ کے فیصلہ ساز سوچ بھی نہیں سکتے تھے گویا چین سے الجھ کر امریکہ نے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ماری ہے۔ سال 2004ء میں قائم ہونے والا چین عرب ممالک تعاون فورم (سی اے ایس سی ایف) شنگھائی تعاون تنظیم کی طرح باہمی فائدہ مند تعاون کی عمدہ مثال و بینظیر حکمت عملی ہے۔چین نے ایرانی صدر سیّد ابراہیم رئیسی کے دورہئ بیجنگ کے دوران اُن کی میزبانی کرتے ہوئے جہاں اقتصادیات‘ سلامتی اور بنیادی ڈھانچے کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کے بارے میں تبادلہ خیال کیا وہیں ایران پر عالمی اقتصادی پابندیوں کے منفی اثرات کم کرنے کے لئے تعاون بڑھایا جو ایران کے لئے خاص طور پر
اہم تھا۔ مذکورہ دورہ ایران کے لئے انتہائی ضروری ثابت ہوا کیونکہ بیجنگ اور تہران نے اپنے تعاون کو مزید مستحکم کرنے کے مقصد سے قریب بیس معاہدوں پر دستخط کئے۔ پہلے چین عرب ریاستی سربراہ اجلاس کی افتتاحی تقریب کے دوران چینی صدر نے تقریر کی اور چین و عرب ممالک کے درمیان تعاون کے امید افزا مستقبل پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے خوراک اور توانائی کے تحفظ‘ بنیاد پرستی اور دہشت گردی جیسے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے مشترکہ کوششوں پر زور دیا۔ چین مشرق وسطیٰ میں سرمایہ کاری کا خواہاں ہے اور اس بات کی وکالت کر رہا ہے کہ تمام شراکت دار اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کریں۔ تجارتی راہداریوں کی ترقی اس مقصد کے حصول کے لئے چین کی طرف سے اٹھائے جانے والے اہم اقدامات میں سے ایک ہے۔ یہ کوششیں خلیجی خطے میں چین کے مستقبل کو محفوظ اور روشن بنا رہی ہے۔ بالخصوص چین کا ’بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹواور چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کا پس پردہ خیال یہی ہے کہ ممالک اپنی اقتصادی و معاشی ترقی کے لئے ایک دوسرے پر انحصار کریں۔ چین خلیجی خطے میں سٹریٹجک شراکت داری قائم کرنے اور آزاد تجارتی معاہدوں پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں بڑی حد تک کامیاب رہا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ مشرق وسطیٰ میں چین کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کی وجہ تیل کی درآمدات ہیں کیونکہ چین اپنی تیل کی ضروریات پوری کرنے کے لئے مشرق وسطی پر زیادہ انحصار کر رہا ہے۔ سعودی عرب چین کو تیل فراہم کرنے والا
سب سے بڑا ملک ہے جس کے بعد عراق‘ متحدہ عرب امارات اور کویت کا نمبر آتا ہے چونکہ تیل و گیس کے لئے چین کے گھریلو ذخائر اس کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لئے ناکافی ہیں لہٰذا خلیجی وسائل چین کے ترقیاتی اہداف حاصل کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن خاص نکتہ یہ ہے کہ چین عالمی تعلقات کو صرف اپنے مفادات کی عینک لگا کر نہیں دیکھ رہا بلکہ ایک ایسا ماحول بنانے جا رہا ہے جس میں خلیجی خطے کے ممالک اپنے وسائل سے ایک دوسرے کی مدد بھی کرے۔ موجودہ صورتحال میں چین نے ایرانی جوہری مذاکرات میں سفارتکاری کی پیش کش کی ہے اور ایران کے جوہری مسئلے و تنازعے کے حل کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ چین نے دیگر عرب ممالک کے ساتھ بھی اسی طرح کی سٹریٹجک شراکت داری قائم کی ہے اور مشرق وسطیٰ کے اتحادیوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں نازک توازن قائم کیا ہے اگرچہ چین نے مشرق وسطیٰ میں عدم مداخلت کی پالیسی برقرار رکھی ہے اور اپنی سیاسی اور دفاعی شعبوں میں شمولیت بڑھانے میں محتاط رہا ہے لیکن اِس نے حال ہی میں ایک حد تک لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔ شام کے تنازعے میں بھی چین ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے اور اس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جس میں شامی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ محاصرے ختم کرے اور جنگ زدہ علاقوں میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رسائی کو آسان بنائے۔ چین نے کسی بھی ملک میں مداخلت کی حد (ریڈ لائن) عبور کئے بغیر مشرق وسطیٰ میں سفارتی کوششوں کے ذریعے ممالک کی قومی خودمختاری کے احترام کو فروغ دیا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں اقتصادی ترقی کے فروغ سے متعلق چین کی حکمت عملی ہی کی وجہ سے خطے میں انتہائی ضروری معاشی ریلیف فراہم کرنے اور عوام کی معیار زندگی بہتر ہونے کی اُمید پیدا ہوئی ہے۔ ناقدین (امریکہ اور اِس کے مغربی اتحادی ممالک) الزام عائد کر رہے ہیں کہ چین ”قرضوں کے جال میں پھنسنے والی سفارتکاری“ کر رہا ہے۔ واشنگٹن کے سنٹر فار گلوبل ڈویلپمنٹ کا کہنا ہے کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو سے پاکستان‘ لاؤس‘ مالدیپ اور منگولیا سمیت آٹھ ممالک کے قرضوں کا حجم بڑھا ہے جبکہ چین ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اصرار کر رہا ہے کہ اِن ممالک نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں سے معاشی فائدہ اٹھایا ہے۔ چین مشرق وسطی ہوں یا چین روس تعلقات اِن کا بنیادی مقصد معاشی تعاون کو خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ (جز) بنانا ہے۔ اِسی معاشی ترقی کے ذریعے دیرپا امن کی ضمانت اور حصول کے لئے کوششیں ہو رہی ہیں جن کے دور رس مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ خلیجی خطے اور چین روس تعلقات سے آنے والے استحکام و امن میں چین کا کردار نمایاں ہے اور وہ اپنے اقتصادی تعلقات اور سفارتی رابطوں کو وسعت دے کر فعال کثیر الجہتی تعاون جاری رکھے ہوئے ہے۔ آج کا چین ہر اتحادی ملک کے ساتھ ”منافع بخش شراکت داری“ چاہتا ہے اور یہی شراکت داری باہمی ترقی جیسے نتائج کی صورت ظاہر ہو رہی ہے۔