پاکستان کا امتحانی نظام

ہمارے سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں میں سالانہ امتحانات کا سیزن چل رہا ہے پرائیویٹ سکولوں کے امتحانات ختم ہو چکے ہیں نتائج کا اعلان بھی ہو چکا ہے جبکہ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کی تیاریاں جاری ہیں۔امتحان کو طالب علم کی سال بھر کی کارکردگی جانچنے کا معیار سمجھا جاتا ہے۔ امتحان کا نظام انسان کے دنیا میں آنے کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھااور شاید رہتی دنیا تک جاری رہے گا۔ قدیم زمانے سے ہی رسمی اور غیر رسمی امتحان انسان کی قابلیت جانچنے کا اہم ذریعہ رہاہے، اور وقت گزرنے کے ساتھ اس کی ضرورت بھی بڑھتی جارہی ہے۔ ماہرین تعلیم کے مطابق اگریہ عمل صحیح اور منظم طریقے سے کیا جائے تو فرد میں بہت ساری تخلیقی صلاحیتیں اُجاگر ہوسکتی ہے۔جہاں تک پاکستان میں رائج امتحانی نظام کاتعلق ہے، یہ روایتی امتحانی نظام کئی سالوں سے رائج ہے۔ یہ نظام پرائمری، مڈل، ثانوی اور اعلی ثانوی سطحوں کے سالانہ امتحانات کے ساتھ ساتھ انڈرگریجویٹ اور گریجویٹ سطحوں کے امتحانات پر مشتمل ہے۔ اس نظام کو طلبا کے علم اور ہنر کی جانچ کرنے اور انہیں ایسے گریڈ فراہم کرنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے جو ان کی تعلیمی کارکردگی کی عکاسی کرتا ہے۔ تاہم یہ نظام بہت ساری خامیوں سے بھرا پڑا ہے، اور طلبا اکثر پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے امتحانی نظام کا سب سے بڑا مسئلہ روٹ لرننگ پر بہت زیادہ انحصار ہے۔طلبا سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ بہت ساری معلومات کو رٹہ لگا کر حفظ کریں گے اور اسے امتحانات میں دوبارہ پیش کریں گے۔سیکھنے کایہ طریقہ تنقیدی سوچ، تخلیقی صلاحیتوں، اور مسئلہ حل کرنے کی مہارتوں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔امتحانی نظام کو ہی طالب علم کے مستقبل کی پیش گوئی سمجھا جاتا ہے۔امتحانات میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے طلبا کو اعلی تعلیم کے لئے یونیورسٹیوں میں داخلہ دیا جاتا ہے، اور جو ان کے معیار کے مطابق نمبر نہیں لیتے انہیں غیر معروف اداروں میں اپنی تعلیم جاری رکھنے پرمجبور کیا جاتا ہے۔ یا پھر ان کو تعلیم کے عمل سے ہی باہر کیا جاتا ہے، امتحان میں کارکردگی دکھانے کے لئے مسابقت کی صورت میں نکلتا ہے جہاں طلبا ہر قیمت پر امتحانات میں سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں چاہے اس کے بدلے  اپنی ذہنی صحت کو ہی قربان کیوں نہ کرنا پڑے۔ پاکستان کے امتحانی نظام کا ایک بڑا مسئلہ غیرمعیاری اور سطحی ہونا ہے۔ امتحانات مختلف بورڈز اور یونیورسٹیوں کے ذریعے منعقد کیے جاتے ہیں،اور ہر بورڈ کے  اپنے اپنے اصول و ضوابط ہیں۔ یکسانیت کی یہ کمی گریڈنگ میں تضادات کا باعث بنتی ہے، اور امتحان کے معیار میں فرق کی وجہ سے کچھ طلبا غیر منصفانہ طور پر پسماندہ رہ جاتے ہیں۔ امتحانات میں نقل بھی اس نظام کی ایک خرابی قرار دی جا سکتی ہے۔پیپر قبل از وقت آوٹ ہونے اور دوسروں کی جگہ پرچہ دینے  کے واقعات بھی رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔اب توامتحانی سینٹر میں کتابیں اور نقل کے پرزے لیکر جانا معیوب نہیں سمجھا جاتا۔دھوکہ دہی کے اس پھیلا ؤنے امتحانی نظام کی سالمیت اور طلبا کے حاصل کردہ گریڈز کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ روٹ لرننگ پر زور، معیار کی کمی، امتحان کی کارکردگی کو دی جانے والی اہمیت، اور دھوکہ دہی نظام کی بڑی خامیاں ہیں۔ان مسائل پر قابو پانے کے لیے، طلبہ کی قابلیت جانچنے کے طریقوں میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔  یادداشت پر توجہ دینے کے بجائے تعلیمی اداروں کو چاہئے کہ وہ تنقیدی سوچ، تخلیقی صلاحیتوں اور مسائل حل کرنے کی مہارتوں کی حوصلہ افزائی کریں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے امتحانی عمل کی کڑی نگرانی کریں اور دھوکہ دہی کرنے والوں کو کڑی سے کڑی سزائیں دینے کا قانون بنائیں اور اس پرعمل درآمدیقینی بنائیں۔تب ہی پاکستان میں امتحانی نظام ٹھیک ہوسکتا ہے اور صحیح معنوں میں طالب علم کے علم اور ہنر کا عکاس بن سکتا ہے۔نقل کرکے یاپیسے لگا کر پاس ہونے کے نظام نے دیگر معاشرتی خرابیوں کو بھی جنم دیا ہے۔ امتحانات میں کم نمبر آنے پر طلبا کی خود کشی کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔