وفاقی حکومت اور اس میں شامل سیاسی جماعتوں کی خواہش اور درخواست پر پنجاب میں تیس اپریل کوہونیوالے صوبائی اسمبلی کے انتخابات ملتوی کردیئے گئے ہیں حیرت انگیز طورپر تاریخ میں پہلی مرتبہ الیکشن کے التواء کے معاملہ پر سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ میں اتفاق رائے پایا جاتاہے الیکشن کمیشن نے جب سپریم کورٹ کے واضح حکم کے بعد پنجاب اور خیبرپختونخوا میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لئے تاریخوں کے اعلان کے حوالہ سے پیشرفت کی تو اس وقت بھی الیکشن کمیشن کی طرف سے نیم دلی کااظہار واضح طورپر دکھائی دے رہاتھا دونوں صوبوں کی نگران حکومتیں اورالیکشن کمیشن میں ایک غیر محسوس اتفاق رائے پایاجارہاتھاکہ قبل ازوقت الیکشن کاراستہ ہرصورت روکناہے چنانچہ پہلے تو تاریخ دینے کے معاملہ پر تاخیر کی گئی پھر جب پنجاب میں تاریخ کااعلان ہوگیا تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے خوفناک رپورٹیں سامنے آنے لگیں پہلی مرتبہ یہ دیکھنے میں آرہاہے کہ حکومتیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کھل کر کہہ رہے کہ حالات ان کے قابوسے باہر ہیں اس سے قبل حکومتوں اور سکیورٹی اداروں کابیانیہ ہمیشہ یہی رہا کرتاتھاکہ قانون شکنوں اور دہشتگردوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا کبھی حکومت یا سکیورٹی اداروں کی طرف سے یہ نہیں کہاگیاکہ حالات خراب ہیں وطن عزیز اوربالخصوص خیبرپختونخوا میں تو ایسا وقت بھی آیاتھاکہ جب خودکش دھماکے معمول بن چکے تھے سکیورٹی اداروں کے دفاتر،مساجد،حجرے،جرگے،نمازجنازہ کوئی موقع بھی ایسا نہ تھا کہ جب خود کش حملہ نہ کیاگیاہواورتو اور پشاور پریس کلب تک نشانہ بن چکاتھا جو دنیا بھر میں اپنی نوعیت کاتاحال واحد واقعہ ہے مگر اس کے باوجود حکومتوں اور سکیورٹی اداروں کایہی کہناہوتاتھاکہ حالات قابو میں ہیں اور مٹھی بھر دہشتگردوں کو ایجنڈا مسلط کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی تب قوم بھی اداروں کے ساتھ کھڑ ی تھی مل کر اس صور تحال سے چھٹکارے کے لئے قربانیاں دی گئیں اورامن کا سورج طلو ع ہوا ِتاہم بدقسمتی سے اس وقت صورت حا ل ماضی کی نسبت کہیں زیادہ بہتر ہے مگر سیاست کی مجبوریاں دیکھیں کہ صرف قبل ازوقت الیکشن ٹالنے کے لئے یہ بیانیہ بنایاجارہاہے کہ حالات قابو میں نہیں جب الیکشن کمیشن کے سامنے باربارایسی رپورٹیں پیش کی گئیں الیکشن کے لئے سکیورٹی دینے سے صاف انکار کیاگیا اورحکومت کی طر ف سے مالی معاونت سے بھی انکارہوا تو پھر الیکشن کمیشن کو بھی الیکشن ملتوی کرنے کاجواز مل گیا اور اس وقت صور تحال یہ ہے کہ پنجاب کے الیکشن ملتوی ہوچکے ہیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے ایک بارپھر عدالت عظمیٰ کادروازہ کھٹکھٹانے کافیصلہ کیاگیاہے‘انہی سطور میں بارہا عرض کیاجاچکاہے کہ سیاسی جماعتوں کو سیاسی معاملات باہم مل بیٹھ کر حل کرناہونگے رابطوں کے دروازے بندکرنے سے غیرجمہوری قوتوں کی حوصلہ افزائی ہوگی ہمارے ہاں کبھی حکومت تو کبھی اپوزیشن کی طر ف سے میں نہ مانوں کی روش حالات کو خراب کرتی رہی ہے جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تھی اور پی ڈی ایم کی طرف سے قبل ازوقت الیکشن کامطالبہ کیاجاتاتھاتو پی ٹی آئی اور اس کی ا تحادی جماعتیں قبل ازوقت الیکشن کو ملک کے لئے منفی اثرات کے حامل قرار دیتیں چنانچہ پی ڈی ایم کی طر ف سے قبل ازوقت الیکشن کیلئے کی جانیوالی کوششوں کو پی ٹی آئی کی حکومت مسلسل ناکام بناتی چلی گئی اوراب صورتحال بالکل مختلف ہوچکی ہے پی ڈی ایم اوراتحادی جماعتیں برسراقتدارہیں اور پی ٹی آئی اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ اپوزیشن میں ہے اب پی ٹی آئی کامطالبہ قبل ازوقت الیکشن کاہے مگر پی ڈی ایم اور اتحادی جماعتیں قبل ازوقت الیکشن کو ملک اور جمہوریت کیلئے نقصان دہ قراردینے کی رٹ لگائی ہوئی ہیں ہمارے ہاں ہمیشہ معاملات دوانتہاؤں کے بیچ بگڑتے رہتے ہیں نہ تو حکومت اور نہ ہی اپوزیشن ملک اورقوم کی خاطر اپنے اپنے مؤقف میں لچک لانے کیلئے آمادہ ہوتے ہیں جس کے بعد سیاسی جماعتیں خود کو بند گلی میں دھکیل لیتی ہیں اور ا سکے لئے قومی مفاد کو بھی داؤ پر لگانے سے گریز نہیں کیاجاتا کیا کسی نے یہ سوچنے کی زحمت گوارہ کی ہے کہ اگرہم خود ہی امن وامان کی صورتحا ل کو خطرناک قراردیں گے اگر دوصوبوں کے پولیس سربراہان باربار یہ کہیں گے کہ صورت حال کنٹرول میں نہیں ہم پرامن الیکشن کی ضمانت نہیں دے سکتے تو پھر اس ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کون کرے گا‘ ہمارے پولیس سربراہان کی الیکشن کمیشن کو بھجوائی جانے والی تشویشناک رپورٹیں اگر عالمی میڈیا کل کسی مخصوص ایجنڈے کے تحت ہائی لائٹ کرنے لگیں تو وطن عزیز میں بیرونی سرمایہ کار کیونکر آئے گا سیلاب کی وجہ سے معیشت پہلے ہی دباؤ کاشکار ہے رہی سہی کسر سیاسی عدم استحکام نے پوری کردی ہے اب اگر کوئی کمی رہ گئی ہے تو وہ امن وامان کی صورت حال کے حوالہ سے پولیس اور سکیورٹی اداروں کی رپورٹوں سے پور ی ہوجائے گی سیاسی اکابرین کو سوچناچاہئے کہ وہ باہمی اختلافات کی وجہ سے ملک اور قوم کو کس طرف لے جارہے ہیں اس قسم کی رپورٹوں سے تو غیر محسوس طریقے سے خوددہشتگردوں کے عزائم کو تقویت ملنے کاسامان مہیا ہوسکے گا محض الیکشن ملتوی کرنے کی غرض سے اگراس قسم کی رپورٹیں تیارکی جارہی ہیں تو اس عمل پر نظرثانی کی اشد ضرورت ہے‘ وفاقی حکومت میں شامل تمام جماعتیں ماضی میں خود بھی دہشتگردی کاشکاررہی ہیں بے نظیر بھٹو پر دو قاتلانہ حملے ہوئے،مولانا فضل الرحمان پر کئی خود کش حملے ہوچکے ہیں اسفندیارولی خان،آفتا ب شیرپاؤ بھی خود کش حملوں کانشانہ بن چکے ہیں ان جماعتوں کی قیاد ت سے زیادہ دہشتگردی کااحساس اور کس کو ہوگا تمام سیاسی جماعتیں محب وطن ہیں سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ میں سے کوئی بھی ملک کی تباہی نہیں چاہے گا ایک دوسرے پر ملک دشمنی کے الزامات کو سیاست کی حد تک رہنے دیاجائے تو بہتر ہوگا اس کو سنجیدہ لینے کی کوششیں خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں اس وقت حالات بندگلی کی طرف جاچکے ہیں جس سے نکلنے کا واحد راستہ انتخابات کی تاریخ پر اتفاق رائے ہی ہے بہتر ہوگا کہ دونوں فریق لچک کامظاہر ہ کرتے ہوئے نہ اپریل اور نہ اکتوبر پر اصرار کریں بیچ میں کوئی تاریخ دی جاسکتی ہے جولائی کے اوآخریا اگست کے اوائل کی تاریخوں پراتفاق کیاجاسکتاہے اور اب یہ اتفاق ضرور ی ہوچکاہے وقت آگیاہے کہ سیاسی قیادت قوم پر رحم کرتے ہوئے اسے بند گلی سے نکالنے کی سبیل کرے بصورت دیگر کسی کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آسکے گا۔