پنجاب انتخابات‘ تاریخ کی تبدیلی

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات ملتوی کرنے کا فیصلہ بالواسطہ طور پر اس بات کا اشارہ ہوسکتا ہے کہ ’آٹھ اکتوبر‘ سے قبل خیبر پختونخوا اسمبلی کے لئے بھی انتخابات حسب اعلان بروقت نہیں ہوں گے۔ الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ تیس اپریل سے بڑھا کر آٹھ اکتوبر کر دی ہے جس کا مطلب ہے کہ خیبرپختونخوا اسمبلی کے لئے بھی عام انتخابات اب دیگر صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے ساتھ ہوں گے اور خیبرپختونخوا اسمبلی انتخابات کے لئے کوئی نئی تاریخ یا شیڈول جاری نہیں ہوگا‘  الیکشن کمیشن کے اِس فیصلے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف پہلے ہی عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) سے رجوع کرنے کا اعلان کرچکی ہے خیبرپختونخوا اسمبلی کے انتخابات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اِس سلسلے میں الیکشن کمیشن اور گورنر خیبر پختونخوا کے درمیان اب تک 2 مرتبہ باضابطہ مشاورت ہو چکی ہے لیکن اِن رابطوں کے نتیجے میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کی بجائے صوبے میں امن و امان اور مالی صورتحال پر زیادہ غور ہوا ہے  اگر حکومت کی جانب سے اِس منطق اور دلیل کو درست تسلیم کر لیا جائے کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال مخدوش ہے‘ معاشی بحران کی وجہ سے قومی خزانہ انتخابات کا مالی بوجھ اُٹھانے کی سکت بھی نہیں رکھتا تو ایسی صورت میں انتخابات کا انعقاد شاید کبھی بھی نہ ہو سکے‘گورنر خیبرپختونخوا کی جانب سے الیکشن کمیشن حکام سے ملاقاتوں‘ خط و کتابت میں انتخابات سے قبل درپیش مختلف چیلنجز سے نمٹنے کا مطالبہ کیا گیا۔ پاکستان کی سیاست میں پنجاب کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں ضمنی انتخابات کا انعقاد کب ہوتا ہے یا نہیں ہوتا اِس حوالے سے قومی سطح پر زیادہ بحث و مباحثہ نہیں ہو رہا‘ نہ ہی سیاسی جماعتیں پنجاب میں ضمنی انتخابات کے ملتوی ہونے کی حمایت یا مذمت کرتے ہوئے خیبرپختونخوا کا ذکر کر رہی ہیں‘آئینی امور کے ماہرین بھی صرف پنجاب ہی کے حوالے سے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے نظر آتے ہیں‘ وزارت دفاع‘ وزارت داخلہ‘ سینئر فوجی حکام‘ انٹیلی جنس ایجنسیوں اور چیف سیکرٹری پنجاب اور آئی جی پنجاب کی جانب سے متعدد بریفنگز کے بعد الیکشن کمیشن نے پنجاب میں انتخابات ملتوی کرنے کا حکم (بائیس مارچ دوہزاربائیس کی شب) جاری کیا جس میں بنیادی طور پر امن و امان کے حوالے سے خدشات کا حوالہ دیا گیا ہے؛اِس صورتحال میں الیکشن کمیشن کو تاخیر کے لئے سوفیصدی ذمہ دار قرار دینا اور تمام تر الزام الیکشن کمیشن پر عائد کرنا درست نہیں ہوگا۔ الیکشن کمیشن وہی کچھ کر رہا ہے جو اِس کا مینڈیٹ ہے کہ اِسے متعلقہ وزارتوں اور اداروں سے مشاورت کرنی ہے اور اِن کی جانب سے افرادی قوت کی فراہمی پر رضامندی کی صورت ہی الیکشن کی تاریخوں کا اعلان ممکن ہو سکتا ہے۔ تن تنہا الیکشن کمیشن کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے جبکہ اُس کے پاس نہ تو انتخابی عملے کو سکیورٹی فراہم کرنے کے لئے افرادی قوت ہے؛ نہ ہی اِس قدر مالی وسائل ہیں کہ وہ انتخابی عمل کے جملہ اخراجات اپنے طور پر برداشت کر سکے۔الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب میں ضمنی انتخابات کی نئی تاریخ دینے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ اعلان انتخابات منسوخ کرنے سے متعلق نہیں بلکہ ایک نئی تاریخ سے متعلق ہے توجہ طلب ہے کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات منسوخ نہیں کئے لیکن ”الیکشن ایکٹ 2017ء“ نامی متعلقہ قانون کی شق نمبر 58 کے تحت انتخابات کی تاریخ کو آگے بڑھایا ہے اور اِس سے متعلق صدر مملکت کو آگاہ بھی کر دیا گیا ہے کہ موجودہ حالات میں جبکہ وزارتیں اُور ادارے انتخابات کو عملاً ممکن بنانے سے معذرت کا اظہار کر رہے ہیں تو انتخابات چھ ماہ بعد کرا لئے جائیں‘ قابل غور ہے کہ ”الیکشن ایکٹ 2017ء“ کی مذکورہ دفعہ (اٹھاون) کا عنوان ”الیکشن پروگرام میں تبدیلی“ ہے اور اِس کے ’سیکشن ستاون‘ میں بھی الیکشن کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ انتخابات کے اعلان کردہ پروگرام (شیڈول) میں کسی بھی وقت تبدیلی کر دے یا الیکشن کمیشن ایک نیا شیڈول بھی جاری کرنے کا اختیار رکھتا ہے اور الیکشن کمیشن نے اپنا یہی آئینی اختیار استعمال کیا ہے تاہم 8 اکتوبر کی تاریخ دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کی جانب سے اِس بات کی ضمانت نہیں دی گئی کہ آیا اُس تاریخ پر بھی انتخابات کا انعقاد ممکن ہو پائے گا یا نہیں۔ چھ ماہ تاخیر کے بعد ضمنی انتخابات کی ضرورت ہی نہیں رہے گی کیونکہ موجودہ حکومت کی آئینی مدت مکمل ہو جائے گی اور تب ایک ہی مرتبہ قومی انتخابات کا انعقاد ہوگا۔ اِس مرحلہ فکر پر تحریک انصاف یقینا اپنے اُن فیصلوں پر پشیمانی محسوس کر رہی ہوگی جب اُس کے اراکین نے قومی قانون ساز اسمبلی سے استعفی دیا اور پنجاب و خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیاں اِس اُمید  پر تحلیل کر دیں کہ اِن کے نتیجے میں فوری ضمنی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کر دیا جائے گا‘ ذہن نشین رہے کہ موجودہ قومی اسمبلی کی آئینی مدت کا آغاز ”13 اگست 2018ء“ کے روز ہوا تھا اور اِس کا آخری دن ”12 اگست 2023ء“ ہے جب اسمبلیوں کی آئینی مدت مکمل ہو جاتی ہے تو الیکشن کمیشن ’60 دن‘ کے اندر انتخابات کروانے کا پابند ہوتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ ساٹھ دن جو کہ ”11 اکتوبر 2023ء“ کو مکمل ہو رہے ہیں تو الیکشن کمیشن نے ”8 اکتوبر“ کا دن مقرر کیا جو کہ ہفتہ وار تعطیل یعنی اتوار کا دن ہے‘ اب موجودہ صورتحال میں قومی انتخابات کی کہانی وہیں سے شروع ہو گئی ہے  پاکستان غیرمعمولی حالات سے گزر رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کے سامنے تلخ حقائق پیش کئے گئے ہیں جنہیں مدنظر رکھتے ہوئے ماسوائے انتخابات کی نئی تاریخ دینے کے کوئی دوسری صورت نہیں تھی‘الیکشن کمیشن یہی کر سکتا تھا جو اُس نے کیا ہے کہ پیش کردہ (مبینہ) زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے آئین اور قانون کے مطابق کام کرے۔ جب سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو قتل کیا گیا تو الیکشن کمیشن نے اپنے طور پر انتخابی پروگرام آٹھ جنوری دوہزارآٹھ سے بڑھا کر اٹھارہ فروری دوہزارآٹھ کر دیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے اگرچہ باقاعدہ وضاحت جاری نہیں کی اور نہ ہی اِس سلسلے میں کوئی مشاورتی اجلاس طلب کیا گیا ہے لیکن پنجاب اسمبلی انتخابات ملتوی کرنے کے بعد خیبر پختونخوا اسمبلی کے لئے عام انتخابات کا انعقاد بھی ”8 اکتوبر 2023ء“ سے پہلے ممکن ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اِس لئے سیاسی جماعتیں اس امر کو بھی پیش نظر رکھیں۔