خیبر پختونخوا کی نگران حکومت نے پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو صوبوں کے حوالے کرنے سے متعلق وفاقی حکومت کے فیصلے پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔ وفاق نے پشاور الیکٹرنک سپلائی کمپنی اور ٹرائبل الیکٹرک سپلائی کمپنی کو خیبر پختونخوا حکومت کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی صوبوں کو منتقلی کے کام کی انجام دہی کے لئے نو رکنی کمیٹی بھی قائم کی گئی ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت نے وفاق کے فیصلے پر اپنا اعتراض کمیٹی کے سامنے رکھا ہے۔ صوبائی حکومت کا موقف ہے کہ صرف انتظامی اختیارات منتقل کرنا درست نہیں۔ وفاق اگر ڈسکوز کو صوبوں کے حوالے کرنا چاہتی ہے تو بجلی پیدا کرنے اور آمدن سمیت تمام حقوق بھی صوبوں کو دیئے جائیں۔ خیبر پختونخوا واحد صوبہ ہے جو پورے ملک کو پانی سے پیدا ہونے والی سب سے زیادہ بجلی فراہم کرتا ہے۔تربیلا، غازی بروتھا، ورسک، منڈا، گولین گول، لاوی اور دیگر پن بجلی گھروں سے جو بجلی پیدا ہوتی ہے وہ براہ راست نیشنل گرڈ کو سپلائی کی جاتی ہے۔ بجلی کے خالص منافع کی مد میں صوبے کو جو حق ملنا ہے اس کی فراہمی میں بھی ماضی میں وفاق لیت و لعل سے کام لیتا رہا ہے۔ اے جی این قاضی فارمولے کے تحت صوبے کو ملنے والے بجلی کے منافع میں سالانہ دس فیصد اضافے کی سفارش کی گئی تھی۔ تاہم وفاق کئی سالوں تک اضافی رقم ادا کرنے سے پس و پیش کرتا رہا۔اور خالص منافع کی رقم سالانہ چھ ارب روپے تک محدود رکھا گیا۔ آج بجلی کے منافع کے ایک سو ارب سے زائد کے بقایاجات ہیں جبکہ قومی مالیاتی کمیشن کے تحت صوبے کو وفاقی محاصل سے ملنے والا پورا حصہ بھی نہیں دیا جارہا سابقہ فاٹا کے انضمام کے وقت یہ طے پایاتھا کہ تمام صوبے این ایف سی میں اپنے حصے میں سے تین فیصد سالانہ دس سال تک ضم اضلاع پر خرچ کریں گے لیکن تین صوبوں نے اب تک اپنے حصے کی ایک پائی بھی ادا نہیں کی۔ ان حالات میں خیبر پختونخوا پر مالی بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔ آج پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی دو سو ارب روپے خسارے سے دوچار ہے۔ نقصان میں جانے والی اس کمپنی کو صوبے کے حوالے کرنا اور آمدن اپنے پاس رکھنا غیر دانشمندانہ فیصلہ ہے۔ صوبائی حکومت نے بغیر مالی اختیارات کے ڈسکوز کی ذمہ داری قبول کرنے سے صاف انکار کرکے دانشمندی کا ثبوت دیا ہے۔ وسائل اور اختیارات سمیت پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی صوبوں کو منتقلی مسئلے کا واحد حل ہے۔ ساتھ ہی ڈیموں اور پن بجلی گھروں کے قیام کا اختیار بھی صوبے کو مل جائے تو بجلی کی پیداوار میں آئندہ چند سالوں کے دوران اتنا اضافہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ توانائی کی قومی ضروریات کے لئے کا فی ہو۔ قدرت نے خیبر پختونخوا کو آبی وسائل سے نہایت فیاضی سے نوازا ہے۔ دریائے کابل، دریائے سوات، دریائے پنجکوڑہ، دریائے سندھ، دریائے کرم، دریائے کنہار، دریائے سرن سمیت صوبے میں کئی دریا اور ندی نالے بہہ رہے ہیں۔ جن پرڈیم بنائے بغیر پندرہ سے بیس ہزار میگاواٹ گنجائش کے بجلی گھر بنائے جاسکتے ہیں۔فرنس آئل سے چلنے والے مہنگے بجلی گھروں سے جان چھڑانے اور عوام کو سستی بجلی فراہم کرنے کے لئے ان آبی وسائل سے استفادہ کرنا اب ناگزیر ہوچکا ہے۔ بجلی کی چوری اور لائن لاسز پر قابو پانے میں وفاق کے زیر انتظام واپڈا مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ اگر پاور جنریشن اور ڈسٹری بیوشن کا اختیار صوبے کو مل جائے تو بجلی کی چوری اور لائن لاسز پر قابو پانے کے لئے بھی ٹھوس اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔یہ افواہیں بھی کافی عرصے سے گردش کر رہی تھیں کہ حکومت پیسکو اور ٹیسکو سمیت بجلی پیدا اور تقسیم کرنے والی کمپنیوں کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس ممکنہ فیصلے سے ملازمین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی اور وہ کافی عرصے سے پیسکو کی نجکاری کے خلاف احتجاج بھی کر رہے تھے۔ پیسکو اور ٹیسکو کے مالی اور انتظامی اختیارات صوبے کو منتقل ہونے کی صورت میں ملازمین کی پریشانیوں کا بھی ازالہ ہوسکے گا۔