سماجی رابطہ کاری کے وسائل صرف رابطہ کاری تک محدود نہیں رہے بلکہ اِن کے ذریعے صارفین اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ یہی وسیلہ ’پسند و ناپسند‘ کے معیارات بھی تبدیل کر رہا ہے اور اِسی کے ذریعے دوستی‘ دشمنی‘ رشتے داریاں اور قطع تعلقات ہو رہے ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ’سوشل میڈیا‘ اخلاقی و سماجی اقدار پر اثرانداز ہو رہا ہے اور آج کی دنیا میں صرف گردوپیش ہی نہیں بلکہ آپ کو دیکھنے کا زوایہ بھی تبدیل ہو کر رہ گیا ہے۔ بنا کسی ضابطے اور رہنمائی کیا یہ سب ٹھیک ہو رہا ہے؟ اِس حوالے سے ترقی پذیر اور ترقی یافتہ دنیا کے احساسات‘ اور تجربات الگ الگ ہیں اور اِن کا مطالعہ پاکستان جیسے ملک و اقدار پر انحصار کرنے والے معاشرے کے لئے معنی خیز ثابت ہو سکتا ہے۔سوشل میڈیا پر مختصر دورانیے کی ویڈیوز کا تبادلہ (شیئرنگ) اور نمائش کی مفت سہولت فراہم کرنے والی ایپلی کیشن ”ٹک ٹاک“ کو امریکہ میں قانونی چارہ جوئی کا سامنا ہے اور اُس پر الزام ہے کہ امریکی صارفین کی پرائیویسی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ ”ٹک ٹاک“ چین سے تعلق رکھنے والی کمپنی کی ملکیت ہے اِس لئے اُس پر الزام ہے کہ اِس نے امریکی ٹک ٹاک صارفین کے کوائف چین کی حکمراں جماعت ’کیمونسٹ پارٹی‘ کو فراہم کئے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والے صارفین کی عادات اور اُن کی پسند و ناپسند معلوم کرنے کے لئے مختلف قسم کے اعدادوشمار مرتب کئے جاتے ہیں اور پھر اُن عادات کی روشنی میں صارفین کے سیاسی رجحانات اور اُن کی پسند و ناپسند پر اثرانداز ہوا جا سکتا ہے۔ سابق امریکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت میں حکومت کی جانب سے امریکی کمپنیوں کو یہ ہدایات سختی کے ساتھ جاری کی گئیں تھیں کہ وہ ”ٹک ٹاک“ کے مالک ادارے (پیرنٹ کمپنی بائٹ ڈانس) کے ساتھ ہر قسم کی لین دین (کاروبار) بند کر دیں اور پھر ایسا ہی ہوا۔ کسی ایک کمپنی کے خلاف بنا ثبوت الزامات کی وجہ سے امریکہ کو اندرون و بیرون ملک تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کے بعد جون دوہزاراکیس میں امریکی حکومت نے یہ فیصلہ واپس لے لیا تھا اور غیر ملکی سرمایہ کاری سے متعلق امریکی کمیٹی کی جانب سے کمپنی کے جائزے کی اجازت دی تھی۔ جب جائزہ تعطل کا شکار ہوا تو موجودہ صدر جو بائیڈن نے ٹک ٹاک کو ہدایت کی کہ وہ اپنے چینی حصص فروخت کرے یا پھر امریکہ میں پابندی کا سامنا کرے۔ امریکہ میں قانون سازوں کا ماننا ہے کہ چین‘ جس سے انہیں ’غیر منطقی خوف‘ لاحق ہے امریکیوں کی جاسوسی کے لئے ٹک ٹاک کا استعمال کر رہا ہے۔ جنوری میں چینی موسمی غبارے کے واقعے کے بعد سے یہ نظریات زیادہ شدت اختیار کر گئے ہیں۔ کمپنی کے سربراہ (سی ای او) کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی بار ’شو زی چیو‘ امریکی قانون سازوں کے سامنے پیش ہوئے اور تلخ و شیریں سوالات کا سامنا کیا۔ بہت سے لوگوں کے لئے یہ مناظر سال 2018ء جیسے ہی تھے جب ’فیس بک‘ کے سربراہ ’مارک
زکربرگ‘ پر بھی فیس بک پلیٹ فارم کا غلط استعمال کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا اور ’ڈیٹا پرائیویسی کے متعلق امور‘ پر بات چیت کے لئے اُنہیں امریکی قانون سازوں کے سامنے بطور ملزم پیش ہونا پڑا تھا۔ ٹاک ٹاک کے سربراہ ’چیو‘ نے امریکی قانون سازوں کے سامنے اپنے افتتاحی کلمات میں کہا کہ ”بائٹ ڈانس نامی کمپنی چین یا کسی دوسرے ملک کے لئے جاسوسی نہیں کر رہی۔“ ٹک ٹاک کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی عالمی کشیدگی کا حصہ اور نتیجہ ہے۔ ٹک ٹاک کے پندرہ کروڑ (ڈیرھ سو ملین) سے زیادہ فعال امریکی صارفین ہیں۔ ٹک ٹاک کے سربراہ ’چیو‘ نے امریکی قانون سازوں کو یہ بھی بتایا ہے کہ اُن کی کمپنی تمام امریکی صارفین کے کوائف (ڈیٹا) کو چین کی بجائے امریکہ ہی میں ذخیرہ رکھنے (گھریلو سرورز پر منتقل کرنے) کا ارادہ رکھتی ہے اور یہ کام رواں برس (دوہزارتیئس) کے آخر تک مکمل کر لیا جائے گا۔ علاوہ ازیں امریکی صارفین کے کوائف جنہیں امریکہ سے باہر ذخیرہ رکھا گیا ہے وہ بھی امریکہ منتقل کر دیا جائے گا لیکن یہ بیان دیتے ہوئے اُنہوں نے اُن ممالک کا ذکر نہیں کیا جہاں ٹک ٹاک کے صارفین کا ڈیٹا ذخیرہ کیا جا رہا ہے۔ ٹیکنالوجی کی دنیا میں‘ ڈیٹا کی منتقلی معمول کی بات ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کی کئی کمپنی مل کر بھی اپنے اپنے صارفین کا ڈیٹا اکٹھا رکھتی ہیں تاکہ اِس کی لاگت میں کمی لائی جا سکے لیکن اِس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ صارفین
کے کوائف کے کے کسی حصے سے اُن سے اجازت لئے بغیر استفادہ کیا جائے گا۔ جب ٹک ٹاک سربراہ ’چیو‘ امریکہ کے قانون سازوں کے سامنے پیش ہوئے تو اُن سے سوالات کرنے والوں کا لب و لہجہ انتہائی کرخت و سخت تھا۔ صاف عیاں تھا کہ امریکی قانون ساز کسی بھی قسم کی نرمی کرنے کے لئے تیار نہیں اور نہ ہی اِس یقین دہانی کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں ہیں کہ چین کی حکومت نے کبھی بھی ”ٹک ٹاک“ سے امریکی صارفین کا ڈیٹا نہیں مانگا اور نہ ہی یہ ڈیٹا چین کی حکومت کو دیا گیا ہے۔ٹک ٹاک ہو یا کوئی بھی دوسری سوشل میڈیا ایپ‘ معاملہ صرف امریکہ اور چین کے درمیان بداعتمادی کا نہیں بلکہ دنیا کے دیگر ممالک کے فیصلہ سازوں کو بھی اپنے اپنے عوام کے حقوق کے تحفظ کے لئے اِس صورتحال کا جائزہ لینا چاہئے کہ بظاہر پرسکون و پراعتماد سوشل میڈیا ادارے درحقیقت کس قدر شاطر و چالاک ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ امریکہ کے قانون سازوں نے ’ٹک ٹاک‘ کے سربراہ سے ’خطرناک مواد‘ کے بارے میں بھی سوالات پوچھے۔ اِس سماعت میں ایک امریکی خاندان کو بھی طلب کیا گیا تھا جن کے بیٹے نے چلتی ہوئی ریل گاڑی (ٹرین) کے سامنے آ کر خودکشی کرنے کی ویڈیو ’ٹک ٹاک‘ پر نشر کی تھی۔ قانون سازوں کا مؤقف یہ ہے کہ کمپنی اِس قسم کی ویڈیوز نشر کرنے پر پابندی عائد کرے۔ اِس حوالے سے جب ’ٹک ٹاک‘ کے سربراہ ’چیو‘ سے پوچھا گیا کہ کیا اُن کے اپنے بچے ’ٹک ٹاک‘ استعمال کرتے ہیں؟ اطلاعات ہیں کہ وہ ایسا نہیں کرتے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ’ٹک ٹاک‘ پر کھیل کھیل اور تفریح تفریح میں بچوں کی نفسیات اور ذہانت متاثر ہو رہی ہے اور سوشل میڈیا پر سرگرمیاں بچوں کے لئے اِس حد تک مہلک بھی ثابت ہو رہی ہیں کہ بہت سے بچے اپنی زندگیوں کا اختتام کر چکے ہیں۔ امریکی قانون سازوں کے سامنے پیش ہونے والے ٹک ٹاک سربراہ مجموعی طور پر تسلی بخش جوابات نہ دے سکے۔ امریکہ میں وفاقی حکام بھی اس بات پر منقسم ہیں کہ آیا ”ٹک ٹاک“ پر مستقل پابندی عائد کی جانی چاہئے یا نہیں۔ اصولاً سوشل میڈیا کا ہر ذریعہ اور ہر اسلوب صارفین کے لئے نفسیاتی و جسمانی مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔ صرف ’ٹک ٹاک‘ ہی نہیں بلکہ ’فیس بک‘ اور ’انسٹاگرام‘ بھی اُنہی جرائم کے مرتکب ہیں جو ’ٹک ٹاک‘ سے دانستہ یا غیردانستہ طور پر سرزد ہوا ہے۔ پاکستان جیسے ملک و معاشرے میں ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ ’سوشل میڈیا‘ کے جملہ وسائل بالخصوص سرفہرست ”ٹک ٹاک‘ فیس بک‘ اِنسٹاگرام اور یوٹیوب“ کی کارکردگی کا احتساب اور اِن کے صارفین (جن میں ہر عمر اور ہر جنس کے افراد شامل ہیں) کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ بظاہر بے ضرر سوشل میڈیا وسائل سے ہونے والے اخلاقی و سماجی اور تعلیمی جاری نقصانات روکنے کے لئے زیادہ نہیں تو کم سے کم امریکہ قانون سازوں جتنا ہی ’سنجیدگی‘ کا مظاہرہ ہونا چاہئے۔