مفت آٹا سکیم، چند گزارشات

خیبر پختونخوا کی نگران حکومت نے رمضان المبارک کے دوران غریب اور متوسط طبقے کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے مفت آٹے کی فراہمی کا پروگرام شروع کیا ہے۔ رمضان پیکیج کے تحت 19 ارب 77 کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔2 لاکھ میٹرک ٹن گندم سے دس دس کلو گرام کے ایک کروڑ 72لاکھ سے زائد آٹے کے تھیلے تقسیم کئے جائیں گے۔صوبائی وزیر خوراک کا کہنا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ساتھ رجسٹرڈ گھرانوں کو مفت سرکاری آٹا دیا جائے گا ۔صوبائی حکومت کے مطابق مفت آٹا پروگرام سے رجسٹرڈ 57 لاکھ 50 ہزار سے زائدگھرانے مستفید ہونگے ۔صوبے کی 91 فیصد آبادی رمضان پیکیج سے فائدہ اٹھائے گی۔ مفت آٹے کی تقسیم کےلئے صوبہ بھر میں 7ہزار 600 سے زائد سیل پوائنٹس قائم کئے گئے ہیں۔کمر توڑ مہنگائی کے اس دور میں روزہ داروں کو تیس کلو گرام مفت آٹے کی فراہمی بلاشبہ ایک مستحسن قدم ہے۔ اوپن مارکیٹ میں
 بیس کلوگرام آٹے کا تھیلا دو ہزار آٹھ سو روپے کا ہوگیا ہے۔ پانچ چھ افراد پرمشتمل ایک متوسط خاندان مہینے میں چالیس سے پچاس کلو آٹا استعمال کرتا ہے۔ سات ہزار روپے ماہانہ صرف آٹا خریدنے پر خرچ ہوتے ہیں۔ تیس کلو مفت آٹے سے غریب خاندان کے دو تین ہفتے نکل جائیں گے۔ لیکن حکومت کے اس نیک کام کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں۔ سیل پوائنٹس پر لوگوں کی جو قطاریں نظر آتی ہیںان میں بعض غیر مستحق بھی ہوتے ہیں۔ غریب لوگ خصوصاً خواتین دن بھر قطاروں میں کھڑے رہنے کے بعد جب ان کی باری آتی ہے تو آٹا ختم ہوچکا ہوتا ہے اگلے روز یہ لوگ دوبارہ سارے کام کاج چھوڑکرمفت آٹے کی قطار میں لگ جاتے ہیں۔ملک کے مختلف شہروں میں مفت آٹے کے حصول کے دوران بھگدڑ مچ جانے سے اب تک چار افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ غریب اور مستحق افراد کے چناﺅ کے لئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی فہرست کو معیار بنایاگیا ہے تاہم بی آئی ایس پروگرام سے آج بھی 50 فیصد غیر مستحق لوگ استفادہ کررہے ہیں۔ماضی میں بی آئی ایس پی کی فہرست کو از سر نو مرتب کرکے 21 ہزار غیر مستحق افراد کے ناموں کو فہرست سے نکال دیا گیاتھا اطلاع ہے کہ انہیں دوبارہ فہرست میں شامل کردیاگیا ہے۔ یہ غیر مستحق افراد بھی مفت آٹا سکیم سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور غریبوں کی حق تلفی ہورہی ہے۔صوبائ
ی حکومت کے نوٹس میں یہ بات آئی ہے کہ مفت آٹا سکیم سے بہت سے غیر مستحق لوگ استفادہ کر رہے ہیں اس لئے صوبائی حکومت نے صوبہ بھر کے تمام اضلاع میں انتظامی سیکرٹریوں کو آٹا تقسیم کرنے کے نظام کی مانیٹرنگ کی ہدایات جاری کی ہیں۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مانیٹرنگ کا یہ نظام جلد از جلد فعال بنایا جائے ورنہ دوسری صورت میں عوام تک ریلیف پہنچانے کا خواب ادھورا رہ جائے گا۔ صوبے کی 91فیصد آبادی کو مفت آٹے کی فراہمی کے حکومتی دعوے کو اگر سچ مان لیاجائے تو ہر دس میں سے نو گھروں کو مفت آٹا ملنا چاہئے۔ جبکہ برسرزمین حقائق اس کے منافی ہیں۔ اگر یہ سسٹم ناکام ہوتا ہے اور مفت آٹا مستحقین تک نہیں پہنچتا تو پھر اس کا متبادل یہ ہے کہ بجائے مفت کے اگر حکومت آٹے کی قیمت 2800روپے سے کم کرکے 1500روپے فی بیس کلو مقرر کرے تو اس سے تمام لوگوں کو فائدہ پہنچے گااور قومی خزانے پربھی بوجھ نہیں پڑے گا۔