ملک کے دیگر حصوں کی طرح خیبرپختونخوا میں بارشوں کا آغاز (نیا سلسلہ) طول پکڑ گیا ہے جس کا اگر زراعت کے شعبے پر اثرات کا جائزہ لیا جائے تو اِس غیرمتوقع اور طویل دورانیے کی بارش یا مطلع ابرآلود ہونے کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار متاثر ہو رہی ہے اور کئی ایسے علاقے بھی ہیں جہاں میلوں پر کھڑی فصلیں بارش و ژالہ باری سے مکمل طور پر تباہ ہوئی ہیں۔ بارشوں کا یہ نیا سلسلہ چوبیس مارچ سے شروع ہے۔ ہر سال ’نوروز‘ کے موقع پر بارشیں ہلکی بوندا باندی اور موسم بہار کے آغاز کے اعلان کی صورت خوشگوار تبدیلی لاتی تھیں لیکن اِس مرتبہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بارشوں کی وجہ سے سردی کی لہر آئی ہے جو خلاف معمول ہے۔ شہری علاقوں میں رہنے والے ماہ رمضان المبارک کے ابتدائی روزے سرد موسم کی وجہ سے باآسانی طے کرتے ہوئے مطمئن ہیں لیکن موسم بہار میں سردی کی لہر فصلات اور پھلوں کی پیداوار کو متاثر کرنے کا باعث بن رہی ہے اور جب فصل یا پھل خراب ہوتے ہیں تو کم پیداوار کی وجہ سے اُن کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایک ایسے منظرنامے میں جہاں پہلے ہی سبزی و پھل کی قیمتیں عام آدمی کی قوت خرید سے زیادہ ہیں تو موسمیاتی تبدیلی رہی سہی کسر بھی نکال رہی ہے ‘ جس نے چھوٹے بڑے کاشتکاروں کو تشویش و پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے۔بارشوں کا سلسلہ خیبر پختونخوا میں آئندہ چند روز جاری رہنے کا امکان ہے اور تقریباً ہر روز ہی کسی نہ کسی علاقے سے ’ژالہ باری (اولے برسنے)‘ کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں جو زرعی نکتہ نظر سے اچھا نہیں ہے۔ پچیس مارچ کے روز خیبرپختونخوا کے مختلف حصوں میں ماہانہ و سالانہ اوسط سے زیادہ بارشیں ہوئیں۔ بنوں میں ستاون ملی میٹر بارش ریکارڈ ہونا غیرمعمولی ہے اور اگرچہ مقامی لوگ اِس غیر متوقع موسم سے لطف اُٹھا رہے ہیں لیکن بارشوں کے یہ بدلتے ہوئے تیور کسی بھی صورت اجناس کی پیداوار کے لئے موافق نہیں کیونکہ پنجاب کے میدانی اور خیبرپختونخوا کے طول و عرض کے زیادہ تر علاقوں میں گندم کی فصل تیار کھڑی ہے لیکن اناج ابھی پک کر تیار نہیں ہوا اور اِسے دھوپ کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی ماہرین پہلے ہی اِس قسم کے غیرمتوقع ماحولیاتی تبدیلیوں کی پیش گوئیاں کر چکے تھے جس سے صرف پاکستان نہیں بلکہ خطے کے دیگر ممالک بھی متاثر ہیں اور وقت ہے کہ ماحولیاتی عدم توازن کو دوبارہ متوازن بنانے کے لئے سوچ بچار کی جائے۔ پاکستان پہلے ہی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اپنی نقدآور کپاس کی فصل سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے اور اگر موسمیاتی تبدیلیوں کا یہ سلسلہ جاری رہا تو رواں برس قومی ضروریات کے لئے گندم اور برآمدات کے لئے آم بھی دستیاب نہیں ہوں گے۔موسمیاتی تبدیلیوں کی صورتحال پنجاب اور خیبرپختونخوا کے کاشتکاروں کے لئے ”قدرتی آفت“ ہے لیکن اِسے حکومت کی طرف سے ’قدرتی آفت‘ کے طور پر نہیں دیکھا جا رہا۔ اصولاً کاشتکاروں کے موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لئے فصلوں کا بیمہ فی الفور متعارف ہونا چاہئے جبکہ کسان کارڈ کے ذریعے بیج‘ کھاد اور دیگر پیداواری ضروریات کی فراہمی کے لئے بھی خاطرخواہ ’فوری اقدامات‘ ضروری ہےں۔ توجہ طلب ہے کہ صرف زرعی شعبے کو اپنے پاو¿ں پر کھڑا کر کے ہی غذائی اجناس کی قیمتیں اور مہنگائی کی شرح کم کی جا سکتی ہے۔ مہنگائی کا ایک پہلو عالمی معاشی حالات بھی ہیں جن کے اثرات کم سے کم کرنے کے لئے زرعی شعبے پر توجہ ناگزیر ضرورت بن چکی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کاشتکاروں اور کسانوں کو آب و ہوا کی تبدیلی کے بارے میں تعلیم و شعور دینے کے لئے بھی بہت ہی کم کام کیا جا رہا ہے۔ بے موسم بارش یا غیر متوقع موسمیاتی حالات میں کاشتکاروں کو کیا کرنا چاہئے اور ایسی صورتحال میں متبادل حکمت عملی کیا ہونی چاہئے یہ سب کھول کھول کر بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ سرکاری زرعی ماہرین کو اپنے آرام دہ دفتری ماحول سے نکل کر کاشتکاروں کی رہنمائی کے لئے عملی میدان میں کودنا پڑے گا۔ سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ کے ترقی یافتہ وسائل کے دور میں کسی بھی ابلاغ کے کسی بھی تصور کو عملی جامہ پہنانا پہلے سے زیادہ آسان اور کم خرچ ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں بالواسطہ اور بلاواسطہ متاثر ہونے والے کاشتکاروں اور کاروباری طبقے کی نظریں حکومتی اداروں پر ٹکی ہیں‘ جنہیں اِن حالات میں ایک جامع و مربوط حکمت عملی وضع کرنا ہے جو کسی ایک صوبے کی حد تک محدود نہیں ہونی چاہئے۔ توجہ طلب ہے کہ پاکستان میں خلاف معمول بارشیں ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہیں جبکہ ملک پہلے ہی ”غذائی عدم تحفظ“ کا سامنا کر رہا ہے اور گزشتہ سال آئے سیلاب جسے ”سپر فلڈ“ کا نام دیا گیا تھا سے متاثرہ زرعی معیشت و معاشرت تاحال مکمل طور پر بحال نہیں ہو پائی ہے۔ موجودہ موسمیاتی نزلے کا مطلب یہ ہے کہ صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں رواں مالی سال کے دوران خوردنی اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ اِن اجناس کی قلت رہے گی اور ایک ایسا ملک و معاشرہ جس کا گندم کی فصل پر سب سے زیادہ انحصار رہتا ہے‘ مستقبل قریب میں پیش آنے والی غذائی قلت سے کس طرح نمٹے گا‘ یہ ایک ایسا سوال ہے‘ جس کا جواب تلاش کرتے ہوئے عملاً حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔ کاشتکاروں کو زرعی ماہرین سے اِس بات کی بھی توقع ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے والے بیج اور کاشتکاری کے متبادل (جدید) طریقوں کے ذریعے رہنمائی کریں گے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کے تحت چین سے زرعی شعبے میں ٹیکنالوجیکل تعاون کا بھی کاشتکاروں کو انتظار ہے۔ دوسری طرف زرعی پیداوار متاثر ہونے سے ملک کو درپیش معاشی مشکلات جن میں جاری اخراجات کے لئے زرمبادلہ کے خاطرخواہ ذخائر نہ ہونا‘ غیرملکی کرنسی کے ذخائر میں کمی اور ملک کے ممکنہ دیوالیہ (ڈیفالٹ) جیسی صورتحال میں اِس بات کی توقع نہیں کی جانی چاہئے کہ حکومت خوردنی اجناس زیادہ بڑی مقدار میں درآمد کرے گی۔ حالیہ غیرمتوقع بارشوں سے جن کاشتکاروں اور کسانوں کی فصلیں تباہ یا متاثر ہوئی ہیں‘ اُن کے مصائب و مشکلات پر غور ہونا چاہئے۔ ’موسمیاتی تبدیلی‘ اصطلاح نہیں بلکہ ’حقیقی بحران‘ ہے اور اِسے ’حقیقی بحران‘ کے طور پر ہی دیکھا جانا چاہئے۔ دانشمندی اِسی میں ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے ’نیشنل ایکشن پلان (قومی حکمت عملی)‘ وضع کی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ اور بہتر سے بہتر مو¿ثر طریقوں‘ تدابیر و حکمت کا استعمال کرتے ہوئے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹا جا سکے۔ پاکستان عالمی جنوب (گلوبل ساو¿تھ) میں شمار ہوتا ہے اور اگرچہ اِس کا ’گرین ہاو¿س (مضر ماحول) گیسیز کا اخراج‘ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن اِس کی معیشت و معاشرت بالخصوص زراعت بُری طرح متاثر ہے۔ صنعتی ترقی کے بل بوتے پر ’ترقی یافتہ‘ کہلانے والے ’گلوبل نارتھ‘ کے ممالک کو دنیا میں بدلتی ہوئی آب و ہوا کی صورتحال اور اِس کے اثرات سے آگاہ کرنے کے لئے اقدامات ضروری ہیں تاکہ سائنس و ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے‘ کم رقبے سے زیادہ زرعی پیداوار حاصل کرنے کے موجود اِمکانات سے فائدہ اُٹھایا جائے اور موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات کے ازالے‘ تلافی اور بالخصوص اِن کے اثرات کم کرنے کے لئے تکنیکی امداد حاصل کی جا سکے۔