کتاب کہانی: انسانی ترقی کا سفر

جدید دنیا کے تصورات میں وقت کی اہمیت اور وقت کے درست استعمال کے بارے میں روایتی نظریات پر نظرثانی ہو رہی ہے۔ ٹیکنالوجی کے دور میں وقت کا مفہوم بدل گیا ہے کیونکہ گھنٹوں اور دنوں کا کام منٹوں میں مکمل ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں زندگی کی ترتیب اور نظم و ضبط کے بارے میں ڈاکٹر باب مور ہیڈ (Dr. Bob Moorehead) کی کتاب ”ڈویلپ مینجمنٹ سکلز“ بہت ہی خاص و منفرد کوشش ہے۔ کتاب میں انسانی فطرت اور مادی ترقی کے درمیان جاری کشمکش پر بھی دعوت ِغور و فکر دی گئی ہے تاکہ یہ نتیجہ اخذ نہ کیا جائے کہ کتاب جدیدیت کو روکنے یا اِس سے کنارہ کشی کے لئے لکھی گئی ہے بلکہ اِس کتاب کے ذریعے انسانی فطرت اور مادی ترقی کے درمیان تناؤ کو حل کیا جا سکتا ہے۔ مقصد صرف یہ ہے کہ جو کچھ ہم کرتے ہیں اُس پر غور ہونا چاہئے کہ ہم ایسا کیوں کر رہے ہیں اور یہیں سے جدید مسائل کے بارے میں تفہیم حاصل ہوتی ہے۔ ڈاکٹر باب لکھتے ہیں ”آج کے دور کا تضاد یہ ہے کہ ہمارے پاس اونچی عمارتیں ہیں لیکن ان میں رہنے والوں کے ذہنوں میں گنجائش کم ہے۔ وسیع و عریض ترقی کے باوجود ہمارا نقطہ نظر ’تنگ نظری‘ پر مبنی ہوتا ہے۔ ہم زیادہ خرچ کرنے کے باوجود بھی سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ کم خرچ کر رہے ہیں۔ ہم زیادہ خریداری کرنے کے باوجود کم لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ ہمارے پاس بڑے گھر اور چھوٹے خاندان ہیں۔ زیادہ سہولتیں ہیں لیکن وقت کم ہے۔ ہمارے پاس زیادہ ڈگریاں ہیں لیکن عقل و شعور کی کمی ہے۔ زیادہ علم ہمارے فیصلے کرنے کی صلاحیت کو متاثر کر رہا ہے۔ آج کی دنیا میں ہر شعبے کے ماہرین زیادہ لیکن ساتھ ہی ہر شعبے کے مسائل بھی لاتعداد ہیں۔ دوا زیادہ لیکن تندرستی کم۔ ہم جانتے ہوئے کہ تمباکو نوشی خطرناک ہے لیکن پھر بھی زیادہ سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔ بہت لاپرواہی سے خرچ کرتے ہیں۔ بہت کم ہنستے ہیں۔ بہت تیزی سے گاڑی چلاتے ہیں۔ بہت جلدی غصے یا طیش میں آ جاتے ہیں‘ بہت دیر تک جاگتے ہیں‘ بہت تھک جاتے ہیں‘ بہت کم مطالعہ کرتے ہیں‘ بہت زیادہ ٹیلی ویژن دیکھتے ہیں۔ ہم نے اپنے اثاثہ جات کو کئی گنا بڑھا دیا ہے لیکن ہماری اقدار سکڑ گئی ہیں۔ ہم بہت زیادہ بات کرتے ہیں لیکن بہت کم بات کو سمجھتے ہیں۔ محبت بھی کم کی جا رہی ہے اور کثرت سے نفرت عام ہے۔ ہم نے زندگی گزارنے کا طریقہ سیکھا ہے لیکن زندگی نہیں۔ ہم نے زندہ رہنے کے سالوں کا اضافہ کیا ہے لیکن زندگی کے سالوں میں نہیں۔ ہم چاند پر جا چکے ہیں اور واپس بھی آ چکے ہیں لیکن پڑوسیوں کے حقوق سے ناآشنا ہیں۔ ہم نے خلاؤں کو تسخیر کر لیا ہے لیکن ہمارے اندر پایا جانے والا خلأ پیش نظر نہیں۔ ہم نے بڑی چیزیں کی ہیں لیکن بہتر چیزیں نہیں کر سکے۔ ہم نے ہوا کو صاف کیا ہے لیکن روح کو آلودہ کیا ہے۔ ہم نے ایٹم کو تقسیم کیا ہے لیکن اپنے تعصب کو نہیں۔ ہم زیادہ لکھتے ہیں لیکن کم سیکھتے ہیں! ہم زیادہ منصوبہ بندی کرتے ہیں لیکن اُس پر کم عمل کرتے ہیں جس کی وجہ سے حاصل بھی کم ہوتا ہے۔ ہم نے جلدی کرنا سیکھا ہے اور انتظار کرنا بھول گئے ہیں۔ ہم پہلے سے کہیں زیادہ معلومات اپنے کمپیوٹروں اور موبائل فونز میں ذخیرہ کر سکتے ہیں لیکن اُس معلومات سے کسی نتیجے تک نہیں پہنچ پا رہے۔ فاسٹ فوڈز اور سست ہاضمے نے رہی سہی کسر نکال دی ہے۔  ہمیں کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ منافع چاہئے۔ ہم کم سے کم وقت میں زیادہ ترقی کے خواہاں ہیں۔ یہ عالمی امن اور داخلی جنگ کا دور ہے جس میں تفریح زیادہ لیکن مزہ کم ہے۔ زیادہ قسم کے کھانے ہیں لیکن غذائیت کم ہے۔“
مندرجہ بالا سطریں ظاہر کرتی ہیں کہ انسانی زندگی کی مساوات سے ایک اہم چیز غائب ہے اور وہ مادی ترقی اور رشتوں‘ جدیدیت اور اخلاقیات‘ تسلسل اور تبدیلی کے درمیان ’توازن‘ برقرار رکھنا ہے۔ آج انسانیت کا مصائب خود سے اور دوسروں سے ’الگ تھلگ‘ ہونے کی وجہ سے ہیں۔ پائیدار تعلقات‘ ثقافتی تبدیلی کے ذریعے آزادی‘ وقار‘ اعتماد‘ محبت اورد یانتداری جیسی اقدار بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ اخلاقی تبدیلیوں کے بغیر تکنیکی ترقی (ٹیکنالوجی) انسانیت کے لئے تباہی کا باعث بنے گی جیسا کہ جوہری توانائی کی دریافت کے وقت ہوا تھا اور اگر ایسی صورتحال میں عقل اور روحانیت جیسی دوا (انٹی بائیوٹکس) سے علاج نہ کیا جائے تو انسانی دل کے اندر موجود بُرائی اور بڑائی (تکبر) تنازعات‘ تشدد اور تخریب کاری کا باعث بنتی ہے جس سے انسانی مصائب میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ آج ہم میں سے ہر ہر کوئی اپنی انفرادی فلاح و بہبود پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔ پوری انسانیت کو ایک وسیع خاندان اور کرہئ ارض کو ایک مشترکہ خزانے کے طور پر نہیں دیکھا جا رہا۔ بدقسمتی سے نام نہاد ترقی کرتے ہوئے ہم ایک ایسے دور (انتہا) تک جا پہنچے ہیں جہاں بقول ’مارٹن لوتھر کنگ جونیئر‘ کہ ہمارے پاس مصنوعی ذہانت سے لیس ہتھیار (گائیڈیڈ میزائل) تو ہیں لیکن ’مس گائیڈیڈ‘ لوگ ہیں۔