کم و بیش نصف صدی پہلے خون کا ایک خوفناک مرض تھیلیسیمیاتیزی سے معصوم بچوں کو اپنی لپیٹ میں لینے لگا تھا انہی دنوں کراچی کی ایک بچی فاطمہ بھی خون کے ایسے ہی ایک مرض کا شکار ہو کر زندگی ہار بیٹھی تھی۔ اس بچی کے والد نے اسی کی یاد میں ایک بلڈ ٹرانسفیوژن سنٹر کا آغاز کیا اور اس مرض کا شکار ہونے والے بچوں کے لئے خون کے عطیات اکٹھا کرنے شروع کر دئیے۔ اپنی بچی کے نام پر ”فاطمید فاؤنڈیشن “ بنانے والے اس خدا ترس شخص کا نام ناظم جیوا تھا۔ کراچی سے شروع ہونے والے اس ادارے نے جلد ہی پاکستان کے کئی شہروں میں اپنے مراکز قائم کئے، یہ 1988کے موسم بہار کی بات ہے جب ناظم جیوا نے پشاور میں فاطمید فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی اور اس سنٹر کا افتتاح کرنے کے لئے انہوں نے بطور خاص پشاور ہی سے تعلق رکھنے والے ایک لیونگ لیجنڈ معروف و مقبول فنکار یوسف خان (دلیپ کمار) کو انڈیا سے مدعو کیا،میری خوش قسمتی کہ اس تاریخی شوکے کمپیئرنگ کا اعزاز مجھے حاصل ہوا۔اور اس طرح پہلے دن ہی سے فاطمید فاؤنڈیشن کے ساتھ جڑ گیا، میں ان دنوں گورنمنٹ کالج پشاور میں تھا،کالج کے طلبہ خون کے عطیات دینے میں ہمیشہ پر جوش رہتے ہیں اکثر ایل آر ایچ اور دوسرے ہسپتالوں سے مریضوں کے لواحقین کالج آتے اور ہم ایک دو سٹوڈنٹس کو ان کے ساتھ کر دیتے تھے،میں بلڈ سوسائٹی کا انچارج بنا تو میں نے باہر سے خون کی تلاش میں کالج کا رُخ کرنے والے مریضوں کے رشتہ داروں سے پوچھنا شروع کر دیا کہ انہوں نے خود خون دیا ہے۔تو معلوم ہوا کہ لگ بھگ 90 فی صد لوگ خود خون نہیں دیتے تھے اور مختلف بہانے کرتے تھے اس کے بعد میں صرف ایسے مسافر مریضوں کو خون کا عطیہ دینے کے لئے بچوں کو بھیجتا تھا جن کا شہر میں کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا تھا اور پھر فاطمید فاؤنڈیشن سے جڑے ہوئے تھیلیسیمیا کے مریض بچوں کے لئے کالج میں کیمپ لگایا،اور انچارج ہونے کے ناتے خون کا پہلا عطیہ میں نے خود دیااس دن ریکارڈ عطیات جمع ہوئے تھے،خون عطیہ کرنے والوں میں طلبہ کے علاوہ تین چار پروفیسر صاحبان بھی شامل تھے۔ جب تک ڈاکٹر خادم فاؤنڈیشن کے انچارج رہے ہم فنڈ ریزنگ اور لوگوں کی آگہی کے لئے سالانہ میوزک شوز بھی کرتے تھے،بد قسمتی سے تھیلیسیمیا کا مرض بہت پھیلنے لگا تھا یہ ایک موروثی مرض ہے اور اس بیماری کی وجہ سے بچوں میں خون کم بنتا ہے اور انہیں ایک خاص مدت کے بعد خون کی ضرورت پڑتی ہے جوایک مہینہ بھی ہو سکتا ہے اس موروثی بیماری کی ایک بڑی وجہ قریبی رشتہ داروں یا پھر اس مرض میں گرفتار مریضوں کی آپس میں شادیاں ہیں۔ ویسے تو رشتہ داروں کی آپس کی شادیوں کا رواج ہر جگہ ہے تاہم ہمارے اس خطے میں شاید سب سے زیادہ ہے۔ اس لئے تھیلیسیمیا کے مریض بچوں میں بہت اضافہ ہوگیا تھا۔ چنانچہ ایک میگزین سے بطور ایڈیٹر وابستہ انسان دوست شخصیت صاحبزادہ محمد حلیم نے تھیلیسیمیا اور ہیمو فیلیا کے مریض بچوں کے لئے فرنٹیئر بلڈ فاؤنڈیشن کے نام سے ایک غیر منافع بخش ادارہ شروع کر دیا، اور میری خوش بختی کہ میں پہلے دن سے اس ادارہ سے بھی جڑ گیا تھا، اور ہم نے اس ادارہ کے پلیٹ فارم سے بھی عام آدمی کی آگہی کے لئے کئی ایک تقریبات کا انعقاد کیا اور آگاہی واک میں ہمارے ساتھ بہت سے جانے پہچانے لوگ بھی شریک ہوئے، گورنرخیبر پختونخوا سیّد افتخار حسین شاہ کے زمانے میں کئی تقریبات گورنر ہاؤس میں ان کی زیر صدارت ہوئیں، البتہ جب کوہاٹ میں بلڈ فاؤنڈیشن کا قیام عمل میں آیا تو اس کا افتتاح بیگم افتخار حسین شاہ نے کیا تھا اور اس افتتاحی شو کا بھی میزبان ہونے کا اعزاز بھی مجھے حاصل ہے، دوست عزیز اعجاز علی خان بھی ان دنوں فرنٹیئر بلڈ فاؤنڈیشن،کی ٹیم کا حصہ تھے،بعد میں انہوں نے بھی دو دہائیاں قبل ”حمزہ فاؤنڈیشن کے نام سے تھیلیسیمیا کے مریضوں کے لئے ایک اور مرکز کی بنیاد رکھی اس کے لئے بھی ہم مسلسل کئی چھوٹی بڑی آگہی کی تقریبات ترتیب دیتے رہے اور اس ادارہ کا دورہ کرنے اور تھیلیسیمیا کے مریض بچوں سے ملنے کیلئے حکومتی بلکہ زندگی کے ہر شعبہ سے اہم شخصیات حمزہ فاؤنڈیشن آیا کرتیں۔(اب بھی آتی ہیں)جلد ہی معروف فنکار اور ہدایتکار عجب گل بھی حمزہ فاؤنڈیشن کی آگاہی مہم میں شامل ہو گئے تھے، اب تو میڈیا اور سوشل میڈیا اور اس طرح کے اداروں کی محنت سے لوگوں تک یہ پیغام مؤثر طریقے سے پہنچ گیا اور شادی سے پہلے اس مرض کے ٹسٹ کئے جانے لگے جس سے اس مرض میں مبتلا بچوں کی تعداد میں قدرے کمی واقع ہوئی ہے تاہم اب بھی ایسے بچوں کے مناسب علاج اور خون کے عطیات کے لئے ہم میں ہر شخص کو اپنا فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، ایک اور ادارہ اتفاق کڈنی ویلفیئر اینڈ جنرل ہسپتال جو گزشتہ دو دہائیوں سے مفت طبی سہولیات فراہم کر رہا ہے،اس کے چیئرمین عبدالحمید گورواڑا نے بھی گزشتہ روز استقبال رمضان کے حوالے سے منعقد ہونے والی ایک تقریب میں بتایا کہ ان کے سنٹر میں بھی اب تھیلیسیمیا کے مریض بچوں کو رجسٹرڈ کرایا جا رہا ہے۔ ان کا بھی یہی کہنا تھا اس مرض کی روک تھام کے لئے عام آدمی کا ان عوامل کا جاننا ضروری ہے جن کی وجہ سے یہ مرض پھیلتا جا رہا ہے، اسی طرح الخدمت فاؤنڈیشن کے رضا کار جہاں قدرتی آفات کے دنوں میں سب سے زیادہ اور سب سے بہتر اور منظم طر یقے سے شب روزمسلسل خدمات انجام دیتے ہیں وہاں الخدمت نے امن کے دنوں میں بھی زندگی کے ہر شعبے میں یتیم بچوں کے کفالت سے لے کر منشیات کے عادی نوجوانوں کو معاشرہ کا مفید شہری بنانے تک اپنی بے مثال اور شاندار خدمات کے چراغ شہر شہر روشن کر رکھے ہیں، جس کی بنا پر پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی الخدمت فاؤنڈیشن کا نام انسان دوستی کا استعارہ بن چکا ہے، گزشتہ کل ان کی ایک ڈونرز کانفرنس میں دوست عزیز ڈاکٹر اقتدار نے مدعو کیا۔ یہ کانفرنس تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا بچوں کے علاج اور دیکھ بھال کے لئے عطیات کے حوالے سے منعقد کی گئی تھی، اور الخدمت فاؤنڈیشن کا عطیات کے حوالے سے یہ طریقہ کار بہت عمدہ ہے کہ وہ مخیر حضرات سے کسی ایک یا ایک سے زیادہ بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری لینے کو کہتے ہیں اس طرح ہر بچہ کو انفرادی توجہ اور سہولت حاصل ہو جاتی ہے۔ دوست عزیز جرنلسٹ لحاظ علی نے الخدمت کی ڈونرکانفرنس میں عمدہ کمپیئرنگ کی اور بہت سے دوستوں نے بہت عمدہ گفتگو کی۔ ہر چند اس شو کے میزبان اور روح و رواں دوست عزیز ڈاکٹر اقتدار اپنے والد گرامی کی اچانک طبیعت کی ناسازی کے باعث شریک محفل نہ ہو سکے مگر شاکر صدیقی سمیت دوسرے دوست مہمانوں کے سواگت کے لئے موجود تھے، جن کی بدولت ڈونر کانفرنس میں تھیلیسیمیا کے مریض بچوں کی دیکھ بھال کے لئے بہت کم وقت میں لگ بھگ اٹھارہ کروڑ کے عطیات اکٹھے کر لئے گئے۔یہ ا الخدمت پر اعتماد کا ایک بین ثبوت بھی ہے اور یہ بھی کہ اگر عام آدمی تک بات نیک نیتی سے اور مؤثرطریقہ سے پہنچائی جائے تو نتائج عمدہ ہی نہیں حیران کن بھی ہوتے ہیں،تھیلیسیمیا کے شکار بچوں کے لئے اس طرح کے مراکز ہی ڈھارس کا سبب بنتے ہیں خوش آئند بات یہ ہے کہ اس طرح کے بہت سے فلاحی اداروں میں ان بچوں کی عمدہ دیکھ بھال کی جا رہی ہے، غنیمت ہے کہ اس نفسا نفسی کے دور میں ایسے ادارے اور اور ایسے مخلص اور خدا ترس لوگ موجود ہیں جو اپنی ذات سے ہٹ کر دوسروں کے لئے اور مضمحل انسانیت کے لئے اپنا مثبت کردار ادا کر رہے ہیں خواجہ میر درد نے کہا ہے کہ
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں