خیبرپختونخوا کے مختلف حصوں سے آٹے کی مفت تقسیم کے مقامات سے سوشل میڈیا پر دنیا کو دکھائے جانے والے مناظر اور اُن کی تفصیلات انتہائی افسوسناک ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں قطار میں کھڑے مستحقین جب دھکم پیل کرتے ہیں تو اُس وقت یہ بات کسی کے تصور میں بھی نہیں ہوتی کہ دس کلو گرام آٹے کا تھیلا کسی کے لئے زندگی اور موت جیسا مسئلہ بھی بن سکتا ہے۔ اِس پورے منظرنامے سے ملک میں موجودہ خراب معاشی حالات کی عکاسی ہوتی ہے جس کی وجہ سے بالخصوص کم آمدنی رکھنے والے طبقات پریشان‘ ناامید اور مایوس دکھائی دے رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آٹا تقسیم کے مراکز پر ’بے چینی‘ اور ’بے صبری‘کا مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے اور اِس کے نتیجے میں ہوئے جانی نقصانات کی اطلاعات صورتحال کو مزید افسوسناک اور ماحول کو مزید افسردہ بنا رہی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ مفت فراہم کئے جانے والے آٹے کے معیار کی ہے۔ سوشل میڈیا پر مختلف ’فلور ملوں‘ کی جانب سے محکمہئ خوراک کو تحریراً آگاہ کیا گیا ہے کہ اُن کو ناقص یا انسانوں کے لئے ناقابل استعمال (مضر) گندم فراہم کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے آٹے کا معیار بھی خراب ہے اور ناقابل تردید ثبوتوں (تصاویر اور ویڈیوز) کے ساتھ کئی ایک ایسی صورتوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے جس میں مفت آٹے کا معیار ناقص نظر آیا ہے۔ دنیا پاکستان کا تماشا دیکھ رہی ہے کہ کس طرح ایک طرف غذائی اجناس کی مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے کہ وہ لوگ جن کا گزر بسر پہلے اپنے ہی وسائل سے ہوتا تھا اب حکومت کی طرف سے مفت آٹا ملنے جیسے رحم و کرم ہیں اور صورتحال کا دوسرا (لائق غور) اَفسوسناک پہلو یہ ہے کہ ’مفت آٹے پر فراہم کی جانے والی سبسڈی (رعایت)‘ قومی خزانے سے پوری ادا ہو رہی ہے لیکن آٹے کا معیار اُس سبسڈی کے عشرعشیر کے برابر بھی نہیں۔ غلطی اور کوتاہی جہاں کہیں بھی ہو رہی ہے اُس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ رمضان المبارک جیسے بابرکت مہینے میں جاری بدعنوانی دھوکہ اور فریب کسی بھی صورت اِس ماہ مبارک کے شایان شان نہیں۔ ذہن نشین رہے کہ خیبرپختونخوا کی نگران حکومت نے رمضان المبارک کے دوران 7 ارب (سات سو کروڑ) روپے سے زائد مالیت کا آٹا مفت تقسیم کرنے کا اعلان کیا جس کے بعد سے آٹے کی تقسیم کا عمل سنبھالنے کی ہر کوشش ناکام ہو رہی ہے۔آٹا ایک بنیادی غذائی جنس ہے‘ جس کا کوئی متبادل موجود نہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ بقا کے لئے ضروری ہے۔ کوئی بھی ماہر معاشیات اس خیال کی مخالفت نہیں کر سکتا کہ گندم کا آٹا چونکہ ایک بنیادی ضرورت ہے اِس لئے یہ سستے نرخوں پر فروخت کیا جانا چاہئے اور اِس پر مہنگائی کا اثر نہیں پڑنا چاہئے۔ اگر حکومت گندم کو مہنگائی سے مستثنیٰ قرار دے دیتی تو غذائی اجناس کی دیگر قیمتوں میں اضافہ آبادی کے ایک بڑے حصے کو متاثر نہ کرتا۔ مثال کے طور پر اگر پھل مہنگے ہیں تو ایک غریب آدمی کے لئے اِس امر سے زیادہ روٹی کی دستیابی زیادہ اہم و ضروری ہے۔توجہ طلب ہے کہ روس یوکرین جنگ کے بعد پاکستان میں آٹے کا بحران پیدا ہوا تاہم صورتحال بڑی حد تک کنٹرول میں رہی کیونکہ پاکستان کے پاس اپنی گندم کا ذخیرہ موجود تھا لیکن گزشتہ برس (سال دوہزاربائیس) کے سیلاب نے گندم کی پیداوار اور اِس کے ذخیرے کو متاثر کیا جس کے بعد سے ’آٹے بحران‘ کی شدت میں اضافہ ہوا ہے اور اِن تمام متوقع و غیرمتوقع عوامل کی وجہ سے آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ادارہ برائے شماریات پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گندم کے آٹے کی قیمت میں ہفتہ وار بنیادوں پر 23.1فیصد اور سال بہ سال کی بنیاد پر 8.46 فیصد اضافہ ہو چکا ہے اور اِس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ گندم کی قیمتوں میں اضافے کا یہ رجحان جاری ہے۔ رمضان المبارک کی عظمت و شان اور بَڑائی کا تقاضا یہ ہے کہ مفت آٹا تقسیم کرنے والے مراکز کی تعداد میں اضافہ‘ گشتی مراکز اور نظم و ضبط کا بندوبست کیا جائے۔ سیلاب متاثرین کی ایک تعداد آج بھی بے گھر ہے۔ جن کے پاس زندگی گزارنے کے وسائل کم ہیں اور صرف آٹے کی فراہمی ہی نہیں بلکہ ایسے حقیقی مستحقین کی دیگر حاجات و ضروریات بھی پوری ہونی چاہئیں۔ کیا امر مانع ہے کہ تاحال ”راشن کارڈ“ متعارف نہیں کروایا جا سکا‘ اگر راشن کارڈ پر آٹے و دیگر اجناس کی قیمتیں گزشتہ سال کے ماہ رمضان المبارک کی سطح پر فراہم کی جائیں تو ’مفت‘ آٹا لینے والوں کی عزت نفس بھی مجروح نہیں ہو گی اور وہ خود کو یا حکومت اُن کو بوجھ نہیں سمجھے گی۔ یہ بہت ہی نازک مرحلہ ہے۔ سوشل میڈیا کی کھڑکی سے دنیا دیکھ رہی ہے کہ پاکستان میں حکومت اور صاحبان ثروت مستحقین سے کس قسم کا برتاؤ کر رہے ہیں۔