یکم اپریل سے پاکستان میں فصلوں کی بوائی کا موسم جسے ”خریف سیزن“ کہا جاتا ہے شروع ہونے والا ہے تاہم اِس مرتبہ آبپاشی کے لئے خاطرخواہ پانی دستیاب نہیں ہے۔ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ”خریف سیزن“ کے لئے غیرمثالی‘ غیرمعمولی اور انتہائی شدید پانی کی قلت کا سامنا رہے گا یعنی ایک طرف کاشتکار خریف کی فصلوں کی کاشت کی تیاریاں مکمل کئے بیٹھے ہیں اور نہیں جانتے کہ ملک میں 27 سے 35 فیصد پانی کی کمی ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں چند ماہ پہلے سیلاب کا پانی خیبرپختونخوا سے پنجاب اور پنجاب سے سندھ جبکہ بلوچستان سے سندھ کی جانب اپنے کناروں سے نکل کر تباہی پھیلاتا چلا گیا وہاں اگر آبپاشی کے لئے دستیاب پانی کی کمی کی اطلاع دی جا رہی ہو تو یقینا یہ ”قدرتی آفت“ کا نتیجہ نہیں بلکہ ملک میں پانی کا انتظام کرنے والے محکموں اور فیصلہ سازوں کی عدم توجہی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پاکستان پانی کی شدید قلت کا سامنا کر رہا ہے جس کی وجہ سے اناج اور چارے کی فصلیں کم رقبے پر کاشت ہوں گی اور اِس سے ’غذائی عدم تحفظ‘ میں مزید اضافہ جبکہ غذائی اجناس کی مانگ اور دستیابی میں فرق کی وجہ سے مہنگائی کی شرح بھی بڑھے گی! افسوس پاکستان کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہے۔پانی کی شدید قلت کے پیش نظر اندیشہ یہ بھی ہے کہ صوبوں کے درمیان اِس کی تقسیم کے حوالے سے تنازعات پیدا ہوں گے جن سے بچنے کے لئے ’ارسا‘ کے پاس ایک متنازعہ حل موجود ہے جس کے ذریعے صوبوں کو پانی بطور حصص تقسیم کیا جاتا ہے۔ ’تین سطحی واٹر مینجمنٹ میکانزم‘ کہلانے والا یہ عمل ماضی میں بھی پنجاب اور سندھ کی حکمراں جماعتوں کے درمیان تنازعے کا باعث بنا تھا اور موجودہ حالات ایک مرتبہ پھر اُسی سمت آگے بڑھ رہے ہیں جب پنجاب و سندھ کی حکمراں اور دو اتحادی جماعتوں کے درمیان پانی کی تقسیم (اپنی اپنی حصہ داری) کے حوالے سے اختلافات پیدا ہوں گے۔ دوسری طرف پانی کا بڑا حصہ نہ صرف چوری ہوتا ہے بلکہ یہ رساؤ‘ بخارات کی شکل اختیار کرنے اور پانی کی ترسیل کے دوران نہروں اور آبپاشی کے چینلز میں جذب ہو کر ضائع ہو جاتا ہے اور پانی کی جو مقدار کسی علاقے کی زرعی زمینوں کے لئے فراہم کی جاتی ہے وہ مکمل اُن تک نہیں پہنچتی۔ زرعی ماہرین اور پاکستان میں غذائی تحفظ قائم کرنے کے لئے زرعی اصلاحات کی وکالت کرنے والوں کا ایک عرصے سے اِس بات پر زور ہے کہ اگر آبپاشی کے جدید طریقے اختیار کئے جائیں اور آبپاشی کے نظام میں سرمایہ کاری کی جائے تو اِن دو اقدامات کے ذریعے پانی کا دانشمندانہ استعمال اور اِس کا تحفظ یقینی بنایا جا سکتا ہے۔زراعت کے لحاظ سے پاکستان کا بڑا شراکت دار ’صوبہ پنجاب‘ کے فیصلہ ساز اِس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ آبپاشی کے عمل میں پانی ضائع ہوتا ہے اور اِس سلسلے میں اُن کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق سات سے آٹھ فیصد کے درمیان پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ گزشتہ بوائی کے موسم ”ربیع سیزن“ میں غیرمعمولی سیلاب (سپر فلڈ) کی وجہ سے کھیتوں میں پانی کی بڑی مقدار جذب ہو گئی تھی جس کا پنجاب کے کچھ علاقوں کو اِس مرتبہ فائدہ ہوگا۔ پنجاب کے مقابلے سندھ میں آبپاشی کے دوران پانی کا ضیاع 35 سے 40 فیصد جیسا غیرمعمولی طور پر زیادہ ہے اور یہ نقصان بالخصوص چشمہ اور کوٹری بیراجوں کے درمیانی علاقوں میں ہوتا ہے۔ پانی کے دستیاب وسائل اور اِن دستیاب وسائل کی منصفانہ (غیرمتنازعہ) تقسیم کے لئے ’ارسا‘ خریف سیزن کے لئے تخمینہ جات کو حتمی شکل دے رہا ہے۔ چوبیس مارچ کو ہوئے ’اِرسا‘ ٹیکنیکل کمیٹی اجلاس میں خریف 2023ء کے لئے پانی کی مجموعی دستیابی کے تخمینے کو حتمی شکل نہیں دی جاسکی جس کی بنیادی وجہ پانی کے ضیاع سے ہونے والے تکنیکی خسارے (جنہیں سسٹم نقصانات) کہا جاتا ہے کے معاملے پر وفاق کی اکائیوں (صوبوں) کے مؤقف میں پایا جانے والا وسیع فرق ہے۔ پانی کی دستیابی کا تخمینہ آبی ذخائر میں موجود پانی‘ متوقع بارش اور بارش کے نتیجے میں دریاؤں کے بہاؤ اور پانی کی ترسیل (نقل و حمل) کے دوران اِس کے ضائع ہونے سے متعلق اعدادوشمار کو مدنظر رکھ کر لگایا جاتا ہے تاہم صوبوں کو ’ارسا‘ کے اِن تخمینہ جات سے ہمیشہ اختلاف رہتا ہے۔ ایک ایسی ہنگامی صورتحال جس میں پانی کی کمی ہے اور خریف 2023ء کا سیزن آئندہ چند روز میں شروع ہونے والا ہے تو اِس بارے میں ”ارسا مشاورتی کمیٹی“ کا اجلاس آج (تیس مارچ دوہزارتیئس) کے لئے طلب کیا گیا ہے جس میں مذکورہ ٹیکنیکل کمیٹی‘ دیگر سٹیک ہولڈرز بالخصوص پنجاب اور سندھ اور واپڈا کی جانب سے پانی کی دستیابی کے حوالے سے تخمینوں پر مبنی اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے گا۔ چیئرمین ’ارسا‘ کی زیر صدارت اِس مشاورتی کمیٹی میں چاروں صوبوں کی نمائندگی کرنے والے اراکین‘ صوبائی سیکرٹری آبپاشی‘ واپڈا اور محکمہ موسمیات کے تکنیکی ماہرین شریک ہوں گے۔ پاکستان میں پانی کی تقسیم سے متعلق صوبوں کے درمیان 1991ء کا ایک معاہدہ (واٹر ایپشیرمنٹ ایکارڈ) بھی موجود ہے جس کی دوسری شق (پیرا ٹو) کا حوالہ دیتے ہوئے سندھ حکومت ’پانی کی تقسیم کا مطالبہ‘ کر رہی ہے لیکن پانی کی قلت سے پیدا ہونے والی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ماضی کے معاہدوں کی بجائے موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ’ارسا‘ چاہتا ہے کہ رواں خریف سیزن میں پانی کی کمی پورا کرنے کے لئے صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے لئے تین سطحی فارمولے پر عمل درآمد کرے۔ ذہن نشین رہے کہ خریف کی فصل کا موسم ’اپریل سے شروع ہوتا ہے اور کئی علاقوں میں اِس کی ابتدا جون سے ہوتی ہے جبکہ ملک کے مختلف حصوں میں اکتوبر تا دسمبر بھی اِس کے تحت کاشت کی جاتی ہے جس میں چاول‘ گنا‘ کپاس‘ مکئی اور ماش کی دال اس موسم کی اہم فصلیں ہیں۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ یہ سبھی فصلیں کس قدر اہم ہیں اور اگر یہ پاکستان کے اپنے کاشتکاری کے وسائل سے خاطرخواہ مقدار میں حاصل نہیں ہوتیں تو پھر انہیں مقامی ضروریات پوری کرنے کے لئے درآمد کرنا پڑے گا جس کی وجہ سے مہنگائی کی نئی لہر آئے گی۔
1991ء کے ”آبی معاہدے“ (پانی کی تقسیم سے متعلق دستاویزی اتفاق رائے) کے ’پیرا ٹو‘ کے تحت پانی کے صوبائی حصص کا تعین کیا گیا تھا تاہم پانی کی قلت کی وجہ سے غیرمعمولی حالات کا سامنا ہے اور چونکہ پانی کی یہ قلت گزشتہ ایک دہائی سے جاری ہے اِس لئے صوبوں کے درمیان معاہدہ تو کر لیا گیا لیکن اِس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے اور موجودہ حالات میں بھی عمل درآمد ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ ارسا نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی شمولیت سے 2002ء میں پانی کی قلت کو مدنظر رکھتے ہوئے تقسیم کا ایک وسیع طریقہ کار بنایا‘ یہ تین سطحی فارمولہ پیرا ٹو‘ پیرا چودہ (اے) اور 1977ء سے 1982ء کے درمیان پانی کی تقسیم کے بندوبست کا مجموعہ ہے۔ پیرا گراف چودہ (بی) میں موسم کے مطابق پانی کی تقسیم کا بندوبست ہے اور اِس میں پورے پاکستان کی سطح پر پانی کی قلت اور پانی کے اضافے (سرپلس) کی بنیاد پر بانٹ کرتا ہے تاہم تین سطحی فارمولے کا اطلاق کم آبادی والے صوبوں جیسا کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا پر نہیں ہوتا اور یہ صرف سندھ و پنجاب پر لاگو ہوتا ہے اور چونکہ مذکورہ تین سطحی فارمولے سے سندھ کے حصے میں کم پانی آتا ہے اِس لئے سندھ شروع دن سے پانی کی تقسیم کے اِس بندوبست کا مخالف ہے۔ سندھ کا موقف رہا ہے کہ تین سطحی فارمولے کو نافذ کرتے ہوئے ’ارسا‘ نے معاہدے کے تحت طے شدہ اپنے ہی اختیار (مینڈیٹ) سے تجاوز کیا ہے اور معاہدے کے برعکس پانی کی تقسیم شروع کردی ہے جبکہ ’ارسا‘ کا مؤقف ہے کہ چونکہ پانی کی تقسیم کا معاملہ (پیرا چودہ‘ پیرا ٹو یا دیگر شقوں کے تحت) پہلے ہی مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے زیر غور ہے‘ اِس لئے اِس معاملے پر مزید بات چیت اُس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک کہ ’سی سی آئی‘ اس معاملے پر کسی نتیجے پر نہیں پہنچ جاتا جبکہ ’سی سی آئی‘ کئی برس سے ’حتمی نتیجے‘ پر نہیں پہنچ سکا ہے۔ ارسا کے زیادہ تر ارکان کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ ارسا کے مینڈیٹ سے باہر تھا کیونکہ سی سی آئی نے تمام سٹیک ہولڈرز سے رائے حاصل کرنے کے لئے کمیٹی تشکیل دی تھی‘ تاہم حتمی رپورٹ کا ابھی انتظار ہے۔